بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کےجنوبی شہر اننت ناگ میں، جہاں گذشتہ منگل کو پولیس فائرنگ میں تین نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد بڑے پیمانے پر تشدد بھڑک اُٹھا تھا، ہفتےکو چاردِن سےمسلسل طورپرنافذ کرفیو میں دوگھنٹے کی نرمی کی گئی۔ لیکن اِسی دوران، شہر میں ہزاروں لوگوں نے ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر آکر بھارت مخالف مظاہرے کیے۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی اور اشک آور گیس استعمال کی، اور اِس کے ساتھ ہی شہر میں دوبارہ کرفیو نافذ کردیا گیا۔ اِسی طرح کےمناظر قریبی قصبے پُلواما میں بھی دیکھے گئے، جہاں کئی روز سےنافذغیر معینہ کرفیو ہنوز جاری ہے، جب کہ سرحدی ضلعے کُپواڑا اوربعض قریبی علاقوں میں جمعےکی شام بھارت مخالف مظاہروں اور پولیس ایکشن میں 14افراد کے زخمی ہونے کے بعد کرفیو نافذ کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق، سنیچر کو کپُواڑا کے بعض علاقوں میں لوگوں نے کرفیو توڑ کر پھر مظاہرے کیےاورپولیس نے اُن کا تعاقب کرتے ہوئے پھر اشک آور گیس کے گولے داغے۔ تاہم، سری نگر سے تقریباً 50کلومیٹر شمال مغرب میں واقع سُوپور شہر میں کرفیو میں دی گئی نرمی جاری ہے۔
دریں اثنا، بھارتی کشمیر کےسرمائی دارالحکومت جموں اور دوسرے ہندو اکثریتی شہروں میں ایک انتہا پسند ہندوتنظیم کی طرف سے دی گئی ہڑتال کی اپیل کا اثرسامنےآیا ہے۔ سری امرناتھ سنگھرش سمیتی نے 2008ء کےموسمِ گرما کے دوران امرناتھ مندر کے یے مختص جنگلات کی اراضی کےمعاملے پرکامیاب ایجی ٹیشن کی قیادت کی تھی۔
سنگھرش سمیتی کےکال میں کہا گیا تھا کہ مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں بھارتی حفاظتی دستوں، بعض ٹرک ڈرائیورں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں پر حملوں یا امرناتھ یاترا پر جانے والے ہندو زائرین کو ہراساں کرنے کے خلاف ایک دن کی ہڑتال کی جائے۔
لیکن ذرائع کے مطابق، جموں کی اکثر سیاسی، سماجی اور تاجر تنظیموں نے ہڑتال میں یہ کہہ کرحصہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے کہ اس سےایک مرتبہ پھر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف، پولیس نے سنگھرش سمیتی کے بعض لیڈروں اور کارکنوں کومظاہرے کےدوران حراست میں لے لیا ہے۔