سری لنکا: راجاپکسے کے نئے صدر بننے کی راہ ہموار

سری لنکا کے صدارتی امیدوار گوٹا بایا راجاپکسے، بائیں طرف ان کے بھائی اور سابق صدر مہیندرا راجاپکسے

سری لنکا کے سابق وزیردفاع گوٹا بایا راجاپکسے کے نئے صدر بننے کی راہیں ہموار ہوگئی ہیں۔ ان کے مخالف امیدوار رجیت پریما داسا نے اتوار کے روز شکست تسلیم کرتے ہوئے انہیں انتخابات جیتنے پر مبارکباد دی۔

تاہم راجاپکسے کی سرکاری طور پر کامیابی کا اعلان آج رات متوقع ہے۔ الیکشن کمیشن نے توقع ظاہر کی ہے کہ ایک دن بعد نئے صدر اپنے عہدے کا حلف لے سکیں گے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق رجیت پریما داسا نے اتوار کو جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ میں عوام کے فیصلے کی قدر کرتا اور اسے قبول کرتا ہوں۔ گوٹابایا راجا پکسے کو ملک کے ساتویں صدر بننے پر میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

اس اعلان کے ساتھ ہی پریما داسا یونائٹیڈ پارٹی کے نائب سربراہ کے عہدے سے بھی علیحدہ ہوگئے ہیں۔

ادھر سابق وزیر دفاع گوٹا کی فتح پر ان کے پرستاروں کی جانب سے جشن کی تیاریاں جاری ہیں۔

سری لنکا کے الیکشن کمیشن نے اتوار کی صبح بتایا تھا کہ ووٹوں کی گنتی مکمل ہوچکی ہے۔ جس کے نتائج کے مطابق راجاپکسے اب تک 48 اعشاریہ 2 جب کہ یونائٹیڈ نیشنل پارٹی کے امیدواراور موجودہ وزیر پریما داسا 45 اعشاریہ 3 فی صد ووٹ حاصل کرسکے ہیں۔

ملک بھرمیں ہفتے کے روز لاکھوں افراد نے نئے صدارتی انتخابات کے لیے ووٹ ڈالے تھے۔

رواں سال اپریل میں ایسٹر کے موقع پر ملک کے گرجا گھروں اور ہوٹلوں میں ہونے والے بم حملوں کے بعد ہونے والے یہ ملک کے پہلے انتخابات تھے۔

راجا پکسے

راجاپکسے سابق صدر مہیندرا راجا پکسے کے بھائی ہیں۔ انہوں نے تامل علیحدگی پسندوں کے خلاف 10 سال قبل ہونے والے آپریشن کی نگرانی کی تھی۔

سنہالی بدھوں کی اکثریت پریما داسا کی حامی تھی۔ جن کا کہنا تھا کہ انتخابات جیت کر وہ ملک کی قیادت کو مضبوط بنائیں گے۔

راجاپکسے کی سری لنکا کے جنوبی حصوں پرگرفت مضبوط ہے۔ یہ علاقے سنہالی شہریوں کے گڑھ تصور کئے جاتے ہیں۔

صدارتی انتخابات ہارنے والے امیدوار رجیت پریما داسا

شمالی حصوں میں پریما داسا کی پوزیشن بہتر تھی۔ ان علاقوں میں تامل اقلیت کی اکثریت آباد ہے۔ پریما داسا نے ان علاقوں میں اپنی مہم کے دوران غریبوں کی مدد کے لیے پالسیاں ترتیب دینے پر زوردیا تھا۔

تامل سیاسی جماعتیں راجپاکسا کی سخت مخالف ہیں۔ جنہیں سن 2009 میں علیحدگی پسندوں کے خلاف جنگ کے آخری مراحل میں عام شہریوں سے انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

راجاپکسے اور ان کے بھائی نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

مسلمان جو سری لنکا کی دوسری بڑی اقلیتی شمار ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اپریل میں ہوٹلوں اور گرجا گھروں پر ہونے والے حملوں کے بعد سے انہیں بھی نفرت آمیزسلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

واضح رہے کہ ان حملوں میں 250 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے اور عسکریت پسند تنظیم داعش کی جانب سے ان حملوں کی ذمے داری قبول کی گئی تھی۔