الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئندہ برس عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو 17 ارب 40 کروڑ روپے کے فنڈز فراہم کر دیے ہیں، تاہم اس کے باوجود ملک میں الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ قیاس آرائیاں اور ابہام اس وجہ سے بھی ہیں کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے 90 روز کے اندر انتخابات نہیں ہو سکے تھے جس کی وجہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کی جانے والی نئی حلقہ بندیاں ہیں۔
آٹھ فروری کو الیکشن کی تاریخ طے ہونے کے بعد چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے بھی انتباہ کیا تھا کہ اگر الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کیے گئے تو ایسا کرنے والے آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔
لیکن چیف جسٹس کے اس انتباہ، الیکشن کمیشن کی وضاحت کے باوجود تاخیر کی افواہیں ختم ہونے میں نہیں آ رہی ہیں۔
اگست میں قومی اسمبلی اپنی مدت سے قبل تحلیل کی گئی تاکہ انتخابات کے لیے 90 روز کا وقفہ لیا جائے مگر الیکشن کمیشن نے 90 روز کے اندر الیکشن کروانے سے معذرت کر لی تھی۔
اب اگرچہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے تاہم اس کے باوجود بعض حلقوں میں الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے بے یقینی برقرار ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابات کے التوا کی قیاس آرائیاں اپنی جگہ لیکن انہیں ملتوی کرنے کے لیے سیاسی حمایت اور قانونی جواز موجود نہیں ہے۔
'بعض حلقے اب بھی الیکشن میں تاخیر چاہتے ہیں'
سینئر صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ابہام اس وجہ سے ہیں کہ بعض حلقے الیکشن میں التوا چاہتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بعض اوقات ایسی خبریں دانستہ طور پر بھی دی جاتی ہیں تاکہ اس پر ردِعمل سامنے آئے اور اس کا تدارک کیا جا سکے، لہذٰا اس معاملے پر بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
سہیل وڑائچ کے بقول کچھ حلقے چاہتے ہیں کہ الیکشن آگے چلے جائیں۔ لیکن جو لوگ الیکشن ملتوی کروانا چاہ رہے ہیں ان کی بات نہیں بن رہی۔
اُن کے بقول چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر انتخابات کو ملتوی یا التوا کا شکار نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایسا چاہیں گی۔
'الیکشن کے قریب آنے پر قیاس آرائیاں دور ہو جائیں گی'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ یہ ہمارا کلچر بن چکا ہے کہ جب بھی الیکشن ہوتے ہیں اس حوالے سے قیاس آرائیوں اور انتخابات میں تاخیر کی باتیں ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ ماضی میں متعدد بار ملک میں انتخابات التوا کا شکار ہوئے اور بعض دفعہ تو مؤخر بھی کر دیے گئے۔
مجیب الرحمن شامی نے اُمید ظاہر کی کہ جوں جوں وقت گزرے گا اور الیکشن کی تاریخ قریب آئے گی یہ قیاس آرائیاں اور ابہام دور ہوتے جائیں گے۔
مجیب الرحمن شامی کے بقول الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد سیاسی جماعتیں متحرک ہو جائیں گی اور اپنی انتخابی سرگیوں کا آغاز کر دیں گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
'انتخابات میں ابہام پیدا کرنے پر چیف جسٹس نوٹس لیں'
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ انتخابات میں تاخیر کی قیاس آرائیوں کو ختم نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ ابہام الیکشن کمیشن کے کسی عمل یا حکومت کی کسی حکمتِ عملی کی بنا پر نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہہ رکھا ہے کہ جو الیکشن کے حوالے سے ابہام پیدا کریں گے ان سے نمٹا جائے گا تو چیف جسٹس کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بھی بعض صحافتی اداروں سے پوچھا ہے کہ وہ انتخابات کے حوالے سے ابہام کیوں پیدا کر رہے ہیں۔
کنور دلشاد کے بقول انتخابات کے حوالے سے ابہام کی ایک وجہ سیاسی جماعتوں کا عوامی طور پر متحرک نہ ہونا بھی ہے اور وہ کافی عرصے سے سیاسی جماعتوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے پارلیمانی بورڈ بنائیں اور انتخابی تیاری مکمل کریں۔
وہ کہتے ہیں کہ انتخابات کے حوالے سے تیاریاں کی جارہی ہیں اور الیکشن کمیشن کہہ چکا ہے کہ 15 دسمبر کو انتخابی شیڈول جاری کر دیا جائے گا۔