کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ مچھر کے کاٹے سے پھیلنے والی بیماری ڈینگی سے بچاؤ کے لیے مریضوں کو مچھروں سے ہی کٹوایا جائے؟ یا لوگ اپنے گھر کے صحنوں یا بیک یارڈ میں خود مچھروں کی افزائش کریں؟ یا مچھروں کے مقابلے کے لیے لاکھوں مچھروں کو فضا میں چھوڑا جائے ؟
یہ تصور کرنا مشکل تو ہے لیکن دنیا کے بہت سے ملکوں میں ڈینگی کے حوالے سے یہ تصورات اب ایک حقیقت بن رہے ہیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق پاکستان ، بنگلہ دیش اور جنوبی ایشیا کے دوسرے ملکوں سمیت دنیا بھر کے 130 ملکوں میں ہر سال لگ بھگ 400 ملین لوگ مچھروں سے پھیلنے والی بیماری ڈینگی کا شکار ہوتے ہیں۔
اس کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے مگر اب تک اس کا کوئی مستند علاج سامنے نہیں آ سکا ہے۔ لیکن اب سائنس دانوں نے اس سلسلے میں ایک عجیب و غریب ، انوکھا مگر ایک کامیاب طریقہ دریافت کیاہے۔
ڈینگی پھیلانے والے مچھروں کے مقابلے کے لیےسائنس دان لیبارٹریوں میں مچھروں کی ایک خصوصی قسم کی نسل کو تیار کر رہے ہیں۔اس نسل کی افزائش کے لیے دنیا بھر کے مختلف مقامات پر فیکٹریاں بنائی گئی ہیں جہاں خصوصی لیبارٹری ماحول میں تیار کیے جانے والے مچھروں میں ایک بیکٹیریا داخل کر دیا جاتا ہے۔
ولباکیا کہلائے جانے والے اس بیکٹیریا کےبارے میں ریسرچز یہ ثابت کر چکی ہیں کہ وہ ڈینگی کے مچھر کے کاٹے کے علاج میں مؤثر ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں ولباکیا بیکٹیریا کے حامل زیادہ تر مچھرکولمبیا کے علاقے میڈیجین کے ایک گودام میں پیدا کیے گئے تھے جہاں ورلڈ مسکیٹو پروگرا م ایک فیکٹری چلاتا ہے جس میں ہر ہفتے 30 ملین مچھر پیدا کیے جاتے ہیں۔
ڈینگی کے خلاف لڑنے والے لاکھوں مچھروں کی اس نئی فوج کو ڈینگی کے پھیلاؤ والے علاقوں کی ہوا میں چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو کاٹ سکیں اور ان میں ڈینگی کو ختم کر سکیں یا انہیں ڈینگی کی بیماری میں مبتلا ہونے سے بچائیں۔
مچھروں کی اس نئی نسل کی خوبی یہ ہےکہ وہ ولباکیا بیکٹیریا کو اپنی اگلی نسل میں بھی منتقل کردیتی ہے جس کی وجہ سے ڈینگی کے مقابلے کی فوج میں کمی نہیں رہتی۔
اگرچہ یہ طریقہ علاج ابھی تجرباتی مرحلے میں ہے لیکن دنیا بھر کے بہت سے ملکوں میں لیبارٹری مچھروں کی فوج ڈینگی کا مقابلہ کرتے ہوئے اس بیماری کی شرح کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو رہی ہے۔
ورلڈ مسکیٹو پروگرام
ڈینگی کے مقابلے کے لیے یہ حکمتِ عملی گزشتہ عشرے میں ایک غیرمنافع بخش عالمی پروگرام، ورلڈ مسکیٹو پروگرام کے ذریعے شروع کی گئی تھی اور اب اسے ایک درجن سے زیادہ ملکوں میں ٹیسٹ کیا جا رہا ہے ۔
سکیٹو پروگرام کے فاؤنڈر سکاٹ او نیل کہتے ہیں کہ ڈینگی کے مقابلے کےلیے نئے طریقوں کی از حد ضرورت ہے اور ان نئے طریقوں کی ایک صورت یہ ہے کہ ان خصوصی مچھروں کی افزائش میں ڈینگی کی متاثرہ کمیونٹیز کی مدد بھی حاصل کی جا رہی ہے جو اپنے گھروں کے صحنوں یا بیک یارڈ میں ان مچھرو ں کی افزائش میں مدد کرتےہیں ۔
ورلڈ مسکیٹو پروگرام کی کامیابی
او نیل کی مسکیٹو لیبارٹری نے اس تبدیل شدہ حکمتِ عملی کو پہلی بار 2011 میں آسٹریلیا میں ٹیسٹ کیا تھا۔ اس کے بعد سے ورلڈ مسکیٹو پروگرام نے دنیا بھر کے 14 ملکوں میں 11 ملین لوگوں پر تجربات کیے ہیں ان میں برازیل، میکسیکو ، کولمبیا ، فجی اور ویت نام شامل ہیں۔
تحقیق کے نتائج حوصلہ افزا ہیں۔ 2019 میں انڈو نیشیا میں ایک بڑے علاقے میں کی گئی ایک ٹرائل سے ظاہر ہوا کہ ولباکیا کے حامل مچھروں کے چھوڑے جانے کے بعد وہاں ڈینگی کے کیسز میں 76 فی صد کمی واقع ہوئی۔
مسکیٹو پروگرام کے فاؤنڈر سکاٹ او نیل کہتے ہیں کہ یہ سوال ابھی بھی جواب طلب ہے کہ کیا یہ تبدیل شدہ حکمتِ عملی عالمی پیمانے پر بھی مؤثر اور سستی ہو گی۔
ہندراس کے دار الحکومت میں90 لاکھ لیبارٹری مچھروں کو چھوڑا جائے گا۔
اس وقت جب دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی ڈینگی کے خطرے میں مبتلا ہے، عالمی ادارہ صحت نے دنیا بھر کے کئی مقامات خاص طور پر وسطی امریکہ کے ملک ہنڈراس میں لیبارٹری میں تیار شدہ مچھروں کی اس فوج کو ڈینگی مچھر کی ایک مقابل فوج کے طورپر لانچ کر دیا ہے۔ جہاں ہر سال لگ بھگ 10 ہزار لوگ ڈینگی کا شکار ہوتے ہیں ۔
گرم مرطوب رین فاریسٹ علاقے میں واقع ہنڈراس کے دار الحکومت ٹیگو سی گالپا میں گزشتہ ماہ درجنوں لوگوں نےاس وقت تالیا ں بجا کر خوشی کا اظہار کیا جب وہاں کے ایک رہائشی نے مچھروں سے بھرے ایک شیشے کے جار کو اپنے سر کے اوپر کھولا اور اس میں سے بھنبھناتے ہوئے مچھروں کو فضا میں چھوڑا۔
اگلے چھ ماہ میں، خصوصی طور پر پیدا کیے گئے لگ بھگ 90 لاکھ مچھروں کو ٹیگو سی گالپا میں چھوڑا جائے گا جہا ں کے رہائشی ڈینگی سے بچاؤ کی حکمتِ عملی پر اعتماد کرنا سیکھ رہے ہیں۔ کیوں کہ یہ طریقہ ہر اس طریقے کےخلاف ہے جو وہ اب تک سیکھ چکے ہیں۔
ٹیگو سی گالپا میں تین سالہ ٹرائل پر 9 لاکھ ڈالر یا ایک شخص پر کم و بیش 10 ڈالر خرچ ہوں گے ۔
ڈینگی سے ہلاکت کی شرح کم ہے لیکن اس کے پھیلنے سے صحت کے نظام بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں اور بہت سے لوگ کام اور دفتر سے غیر حاضر رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ڈینگی وائرس کا علاج کیوں مشکل ہے؟
ایڈیس ایجپٹی مچھروں کی وہ قسم ہےجو عام طور پر ڈینگی کو سب سے زیادہ پھیلاتی ہے۔ان پر عام مچھر مار یا کیڑے مار اسپرے بے اثر ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ ڈینگی وائرس چار مختلف اقسام میں پایا جاتا ہے اس لیے اس پر ویکسینز کے ذریعے قابو پانا نسبتاً مشکل ہوتا ہے۔
ایڈیس ایجیپٹی Aedes aegypti مچھروں سےنمٹنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ وہ سب سے زیادہ سرگرم دن کے وقت ہوتےہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دن کو کاٹتےہیں اس لیے مچھر دانیاں ان کےخلاف زیادہ مدد گار نہیں ہوتیں۔
کیوں کہ یہ مچھر گرم مرطوب ماحول میں اور گنجان آباد شہروں میں پھلتے پھولتے ہیں اس لیے آب وہوا کی تبدیلی اورشہری آبادیوں میں اضافے سے ڈینگی کے خلاف لڑائی مزید مشکل ہو سکتی ہے۔
کیا ولباکیا ڈینگی کا ایک مستقل علاج ہے؟
ڈبلیو ایچ او کے ایک محقق رمن ولایودھن کہتے ہیں کہ ولباکیا یقینی طور پر ایک طویل المیعاد پائیدار حل ہے۔
تاہم سائنس دان ابھی تک یقینی طور پر نہیں جانتے کہ ولباکیا ، وائرل ٹرانسمشن کو اصل میں کس طرح روکتا ہے اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا یہ بکٹیریا وائرس کی تمام اقسام کے خلاف مساوی طور پر مؤثر ہو گا یا پھر کچھ اقسام پر یہ وقت گزرنے پر بے اثر ہو جائے گا۔
ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی ٹیم کےساتھ کام کرنےوالے ایک اور رضاکار 63 سالہ لورڈس بیٹن کورٹ جو شروع شروع میں اس نئی حکمتِ عملی کے بارے میں مشکوک تھیں لیکن کئی بار ڈینگی کا شکار ہونے کے بعد ا ب وہ اپنے پڑوسیوں کو اپنے گھر کے صحنوں میں اچھے مچھر وں کی افزائش کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں ۔
وہ کہتی ہیں، میں لوگوں کو بتاتی ہوں کہ وہ خوفزدہ نہ ہوں ۔ یہ کوئی بری چیز نہیں ہے، بھروسہ رکھیں ، وہ آپ کو کاٹیں گے لیکن آپ کو ڈینگی نہیں ہوگا۔
اس رپورٹ کا مواد خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔