پاکستانی فوج نے سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کو سزائے موت سنائے جانے کے فیصلے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے فوج کے اندر شدید غم و غصہ اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ فوج کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے ملک کے لیے جنگیں لڑیں ہیں وہ کسی صورت غدار نہیں ہو سکتے۔
خصوصی عدالت کی جانب سے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت سنائے جانے کے فیصلے کے چند گھنٹوں بعد دیے گئے ردعمل میں کہا گیا ہے کہ کیس کو عجلت میں نمٹایا گیا ہے۔ ترجمان پاکستانی فوج میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ مسلح افواج توقع کرتی ہیں کہ پرویز مشرف کو آئین کے مطابق انصاف دیا جائے گا۔
اس سے قبل سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی عدالت نے منگل کو سنائے گئے مختصر فیصلے میں قرار دیا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے تین نومبر 2007 کو آئین پامال کیا اور وہ سنگین غداری کے مرتکب ہوئے۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والا بینچ تین ججز پر مشتمل تھا جس میں سے دو نے پرویز مشرف کو پھانسی دینے کے حق میں فیصلہ دیا۔ بینچ کے ایک جج نے سزائے موت کے فیصلے سے اختلاف کیا۔
سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
پرویز مشرف کے وکلائے صفائی کے پینل میں شامل اختر شاہ ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف شکایت غلط تھی اور حکومت پاکستان کو یہ شکایت واپس لینی چاہیے تھی۔ خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے معاملے کو ان کی لیگل ٹیم دیکھے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اختر شاہ ایڈووکیٹ کے بقول، انہوں نے عدالت میں بھی کہا کہ پرویز مشرف پاکستان آنا چاہتے ہیں، انہیں موقع دیا جائے۔ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں، انہیں ڈاکٹرز اور سیکیورٹی فراہم کی جائے۔
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے عدالتی فیصلے پر اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ایسے فیصلوں کا کیا فائدہ جن سے فاصلے بڑھیں، قوم اور ادارے تقسیم ہوں۔
ان کے بقول، "نیو ڈیل کی طرف جائیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا کسی کے مفاد میں نہیں ہے‘‘۔
فیصلے پر حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال کا کہنا ہے کہ فیصلے سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ اب پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی قائم ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اسی نوعیت کا فیصلہ 50 سال پہلے آ جاتا تو ملک کو مارشل لا کی نحوست کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عدالتی فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ آمروں اور غیر جمہوری قوتوں کے لیے واضح پیغام ہے کہ وہ اب غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے قبل کئی بار سوچیں گے۔
سنگین غداری کیس ہے کیا؟
پاکستان فوج کے سابق سربراہ پرویز مشرف نے 1999 میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور بعد ازاں وہ وردی میں ملک کے صدر منتخب ہوگئے تھے۔ پرویز مشرف لگ بھگ 10 سال اقتدار میں رہے تھے۔ وہ ان دنوں علاج کی غرض سے دبئی میں مقیم ہیں۔
سابق صدر نے تین نومبر 2007 کو ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے آئین معطل کر دیا تھا۔
پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کرنے پر آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
نومبر 2013 کو اس وقت کے چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری نے پرویز مشرف کے ٹرائل کے لیے خصوصی عدالت تشکیل دینے کا حکم دیا۔
خصوصی عدالت نے وفاقی حکومت کی جانب سے عائد کیے گئے الزامات پر سماعت کا آغاز کیا۔ لیکن، سابق صدر بیماری اور دیگر وجوہات کی بنا پر عدالت میں حاضر ہونے سے قاصر رہے۔
آخر کار 18 فروری 2014 کو پرویز مشرف عدالت کے رو برو پیش ہوئے۔ ان کے وکلا نے مؤقف اختیار کیا کہ سابق آرمی چیف کے خلاف مقدمہ فوجی عدالت میں چلنا چاہیے۔ تاہم، خصوصی عدالت نے یہ اعتراض مسترد کر دیا۔
پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت 20 نومبر 2013 کو قائم کی گئی تھی اور 31 مارچ 2014 کو عدالت نے مشرف پر فردِ جرم عائد کی تھی۔
بعد ازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نام نکالے جانے کے بعد پرویز مشرف ملک سے باہر چلے گئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خصوصی عدالت نے 19 جون 2016 کو مسلسل غیر حاضری پر پرویز مشرف کو مفرور قرار دے دیا تھا۔ مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران خصوصی عدالت کا بینچ چھ مرتبہ ٹوٹا اور اس کی تشکیلِ نو ہوئی۔
خصوصی عدالت نے 19 نومبر 2019 کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جو 28 نومبر کو سنایا جانا تھا۔ تاہم، پرویز مشرف کے وکلا کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو 26 نومبر کو فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا اور پانچ دسمبر تک نیا پراسیکیوٹر تعینات کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالتی حکم پر چار دسمبر کو علی ضیا باجوہ کو پراسیکیوٹر تعینات کیا گیا تھا اور پانچ دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران خصوصی عدالت نے اُنہیں 17 دسمبر تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی اور کہا تھا کہ اسی روز فیصلہ بھی سنا دیا جائے گا۔