اسپین میں حکومت کا جسم فروشی پر پابندی عائد کرنے کا عندیہ

فائل فوٹو

اسپین کے وزیرِ اعظم نے ملک میں جسم فروشی پر پابندی عائد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

ملک کی حکمران جماعت ’سوشلسٹ پارٹی‘ کے ویلنسیا میں ہونے والے تین روزہ اجلاس کے آخری دن خطاب میں اسپین کے وزیرِ اعظم پیدرو سانچیز نے کہا کہ یہ عمل خواتین کو غلام بنانے کے مترادف ہے۔

اسپین میں حکومت نے 1995 میں جسم فروشی کو قانونی پیشہ قرار دیا تھا۔ اس کے بعد بہت تیزی سے اس سے خواتین وابستہ ہوئیں۔ ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں لگ بھگ تین لاکھ خواتین اس پیشے سے وابستہ ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے 2016 کے ایک اندازے کے مطابق اسپین میں جسم فروشی سے مجموعی طور پر سالانہ تین ارب 70 کروڑ یورو کمائے جاتے ہیں۔

امریکہ کے اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسپین میں مقامی طور پر جسم فروشی سے سالانہ 26 ارب 50 کروڑ ڈالر حاصل ہو رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی 2011 کی ایک رپورٹ کے مطابق اس قدر بڑے پیمانے پر جسم فروشی کے باعث اسپین کو یورپ کا 'قحبہ خانہ' بھی قرار دیا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ بعض ممالک میں جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے ان میں جرمنی، سوئٹزر لینڈ، آسٹریا اور یونان شامل ہیں۔

یورپ میں اس پیشے کو قانونی قرار دینے کے حامی کہتے ہیں کہ اس سے اس پیشے سے وابستہ خواتین کو کئی مراعات ملتی ہیں جب کہ ان کی زندگی بھی محفوظ ہوتی ہے۔

دوسری جانب اس پیشے پر پابندی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ جن ممالک میں اس عمل کو قانونی قرار دیا جاتا ہے، وہاں انسانی اسمگلنگ میں اضافہ ہو جاتا ہے جب کہ اس کام کے لیے دلالی بڑھ جاتی ہے۔ ساتھ ہی اس سے متعلق دیگر جرائم میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

جنسی استحصال کا شکار نو عمر بچوں کو پناہ دینے والی امریکی خاتون

اسپین میں اس حوالے سے 2009 میں ایک سروے کرایا گیا تھا جس میں سامنے آیا تھا کہ ہر تین میں ایک مرد نے کبھی نہ کبھی معاوضہ ادا کر کے خواتین سے جسمانی تعلق قائم کیا تھا۔ بعد ازاں ایسی رپورٹس بھی سامنے آئی تھیں کہ ملک کے 40 فی صد مرد معاوضے کے عوض جسمانی تعلق قائم کر چکے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی 2011 کی ایک مطالعاتی رپورٹ میں سامنے آیا تھا کہ اسپین دنیا بھر میں جسم فروشی کے حوالے سے تیسرے نمبر پر ہے۔ جب کہ تھائی لینڈ اور پرٹوریکو پہلے اور دوسرے درجے پر ہیں۔

اسپین میں جنسی استحصال اور دلالی غیر قانونی قرار دیے گئے ہیں۔

’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق 1980 کی دہائی میں اسپین میں جسم فروشی کرنے والی زیادہ تر خواتین مقامی ہی تھیں۔ البتہ 2000 کے بعد یورپ کے غریب ممالک کی خواتین نے جسم فروشی کے لیے یہاں کا رخ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ لاطینی امریکہ اور افریقہ سے بھی خواتین یہاں آئیں جن کا یہاں استحصال آسانی سے کیا جا سکتا تھا۔

دیگر ممالک سے یہاں لوگوں کی آمد کی وجہ سے اسے ملک میں ایک سیاسی ایشو کی حیثیت بھی حاصل ہو گئی۔

ملک میں یہ پیشہ کسی قواعد و ضوابط کے بغیر جاری ہے۔ نہ ہی ان لوگوں کے لیے کوئی سزا مقرر ہے جو لوگوں کو جسم فروشی کے حوالے سے سروسز فراہم کرتے ہیں۔ البتہ عوامی مقامات ایسا عمل کرنے پر سزا دی جا سکتی ہے۔

اسپین کے وزیرِ اعظم پیدرو سانچیز نے 2019 کے انتخابات سے قبل دیے گئے منشور میں عہد کیا تھا کہ وہ جسم فروشی پر پابندی عائد کر دیں گے۔ اس وقت ان کے اس اعلان کو خواتین ووٹرز کو راغب کرنے کا طریقہ قرار دیا گیا تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکہ میں سیکس ٹریفکنگ

البتہ گزشتہ دو برس کے دوران پیدرو سانچیز کی حکومت میں اس حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔ نہ کوئی ایسا بل پیش کیا جا سکا ہے جس سے واضح ہو کہ حکومت اقدامات کر رہی ہے۔

اسپین میں جسم فروشی پر پابندی کے حوالے سے عوامی سطح پر رائے انتہائی منقسم ہے۔ 2018 میں ملک بھر میں خواتین کے عالمی دن پر انتہائی احتجاج بھی سامنے آیا تھا کہ خواتین کے تشدد کا خاتمہ ممکن بنایا جائے۔ اس احتجاج میں شریک افراد بھی جسم فروشی پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ احتجاج میں شریک بہت سے لوگ حکومت سے نالاں نظر آئے تھے کیوں کہ حکومت نے جسم فروشی کرنے والوں کو یونین سازی کی اجازت دے دی تھی۔

اس برس اگست میں اس حوالے سے ایک تنظیم ’او ٹی آر اے ایس‘ بھی قائم کی گئی تھی۔ اس گروہ نے جسم فروشی سے وابستہ افراد کے تحفظ کے لیے اقدامات کی کوشش شروع کر دی تھی۔