اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے اور اس کے شراکت داروں نے جنوبی سوڈان کے 20 لاکھ پناہ گزینوں اور ان کی میزبانی کرنے والے پانچ بڑے ملکوں ایتھوپیا، کینیا، یوگنڈا، سوڈان اور جمہوریہ کانگو کے لیے ایک ارب 30 کروڑ ڈالر فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔
سات سال سے جاری لڑائیوں کے بعد جنوبی سوڈان نے ایک عبوری قومی حکومت قائم کی ہے اور بظاہر ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ اب وہ امن کے راستے پر چل پڑا ہے۔ تاہم نئی حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔
سب سے بڑا چیلنج جنوبی سوڈان کے لاکھوں پناہ گزینوں کے مسائل کا حل ڈھونڈنا ہے جنہیں لڑائیوں کے باعث جبراً بے گھر ہونا پڑا ہے۔ اور وہ اندرون ملک اور بیرونی ملکوں میں پناہ کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔
پناہ گزینوں کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ 22 لاکھ پناہ گزین اور ان کی میزبانی کرنے والے ملک زندگی بچانے والی اس امداد پر انحصار کرتے ہیں جو انہیں دنیا بھر سے ملتی ہے۔
پناہ گزینوں کے عالمی ادارے کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جنوبی سوڈان کے جو پناہ گزین اپنی مرضی سے وطن واپس آ گئے تھے وہ غیر یقینی صورت حال میں گھر گئے ہیں، جب کہ ابھی تک واپس نہ آنے والے ملک کے حالات دیکھ کر ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ امداد بے گھر افراد کو چھت، خوراک، پینے کا صاف پانی اور علاج معالجے کے لیے درکار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پناہ گزینوں کا عالمی ادارہ 65000 بے سہارا اور بے یارومددگار بچوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ یہ بچے سکول بھی نہیں جا رہے جس کے لیے فنڈز درکار ہیں۔
انسانی ہمدردی کے لیے کام کرنے والے گروپس کو توقع ہے کہ نئی عبوری قومی حکومت دیرپا امن لانے کے لیے سنجیدگی سے کام کرے گی۔