جنوبی سوڈان میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط

معاہدے کے تحت دونوں فریق کسی بھی طرح کی مسلح کارروائی سے بعض رہیں گے اور اس پر چوبیس گھنٹوں میں عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔
جنوبی سوڈان کے صدر سلوا کیر اور حزب مخالف کے رہنما رئیک ماچار کے درمیان جنگ بندی کا ایک معاہدہ طے پایا ہے جس پر جمعہ کی شب ایتھوپیا میں دستخط کیے گئے۔

معاہدے کے تحت دونوں فریق کسی بھی طرح کی مسلح کارروائی سے بعض رہیں گے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کی جانے والے کارروائیوں کے لیے راستے کھولیں گے۔

رئیک ماچار نے یہ یقین دہانی کرائی کہ ہفتہ کے روز سے اُن کے فوجی معاہدے پر عمل درآمد کے پابند ہوں گے۔ ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اور میری جماعت۔ وہ جماعت جس کی میں قیادت کرتا ہوں اور وہ فوج جس کی میں سربراہی کرتا ہوں۔ اس معاہدے پر ہر صورت عمل درآمد کریں گے۔‘‘

اس سے قبل بھی جنوری میں ایک ایسا ہی معاہدہ طے پایا تھا لیکن اُس کے باوجود جنوبی سوڈان میں لڑائی جاری رہی۔

جمعہ کو طے پانے والے معاہدے پر دستخط کے بعد اس ضمن میں آئندہ آنے والے ہفتوں میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے جس میں مستقل جنگ بندی بھی شامل ہے۔

دونوں رہنماؤں نے ایک ماہ میں دوبارہ ملنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

اپوزیش رہنما رئیک ماچار نے کہا کہ آگے بڑھنے کے راستے کی جانب یہ معاہدہ بہت اہم ہے۔

امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ یہ معاہدہ جنوبی سوڈان کے مستقبل کی جانب ایک پیش رفت ہے اور اُنھوں نے دونوں فریقوں پر اس معاہدے پر فوری عمل درآمد پر زور دیا۔


جان کیری اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون گزشتہ ہفتے جنوبی سوڈان کا دورہ کر چکے ہیں۔ یہ دورے اس ملک میں لڑائی کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کا حصہ تھے۔

صدر سلوا کیر اور رئیک ماچار کی حامی فورسز کے درمیان کئی ماہ سے جاری لڑائی کے باعث ہزاروں افراد ہلاک اور لگ بھگ 12 لاکھ سے زائد بے گھر ہو ئے۔

اس سے قبل جمعرات کو ایک رپورٹ میں اقوامِ متحدہ نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ جنوبی سوڈان میں لڑائی کے دوران دونوں فریق انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب میں ملوث ہو سکتے ہیں۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' کے مطابق اس کے اہلکاروں نے جنوبی سوڈان کے قصبے بور کے نزدیک ایک اجتماعی قبر دریافت کی تھی جس میں 530 لاشیں موجود تھیں۔

رئیک ماچار جنوبی سوڈان کے نائب صدر تھے جنہیں صدر سلوا کیر نے گزشتہ سال جولائی میں برطرف کر دیا تھا۔ مسٹر ماچار پر الزام لگایا گیا تھا کہ اُنھوں حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش کی تھی، لیکن وہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔

تاہم رئیک ماچار کی برطرفی کے بعد مسلح جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں۔