|
ویب ڈیسک — جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے سیاسی مخالفین کو 'ملک دشمن عناصر' قرار دیتے ہوئے گزشتہ ہفتے لگائے گئے مارشل لا کے اقدامات کا دفاع کیا اور اسے ملک میں جمہوریت کی خفاظت کا اقدام قرار دیا۔
جمعرات کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے صدر یون نے کہا کہ وہ آخر تک مقابلہ کریں گے۔
انہوں نے یہ خطاب ایک ایسے موقع پر کیا ہے جب ان کی اپنی جماعت کے ایک رہنما نے کہا ہے کہ صدر کی جانب سے استعفیٰ دینے کے کسی بھی قسم کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ ان کا مواخذہ لازمی طور پر ہونا چاہیے۔
صدر یون سک یول کے خلاف تین دسمبر کو لگائے گئے مارشل لا کی تحقیقات جاری ہیں۔ اس مارشل لا کو جنوبی کوریا میں کئی دہائیوں کا ایک بڑا سیاسی تنازع قرار دیا جا رہا ہے۔
صدر یون کو دو دن بعد ہفتے کے دن اپنی صدارت میں دوسری بار مواخذے کا سامنا کرنا ہوگا۔ ناکام مارشل لا لگانے پر گزشتہ ہفتے پارلیمان میں مواخذے کی تحریک کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔
جنوبی کوریا کے ایوان میں 300 ارکان ہیں جن میں 108 کا تعلق حکومتی جماعت ’پیپل پاور پارٹی‘ (پی پی پی) سے ہے جب کہ 192 ارکان کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے۔
اپوزیشن کو آئندہ ہفتے حکومتی ارکان کے کم از کم 8 ووٹ درکار ہوں گے جس کے بعد مواخذے کی تحریک منظور ہو سکتی ہے۔
SEE ALSO: جنوبی کوریا: ناکام مارشل لا پر گرفتار سابق وزیرِ دفاع کی خودکشی کی کوششجنوبی کوریا کے آئین کے مطابق جب پارلیمان صدر کو مارشل لا اٹھانے کا کہے تو وہ اس پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔
جمعرات کو قوم سے خطاب کے دوران یون سک یول نے کہا کہ ’جرائم پیشہ گروہوں‘ نے ریاستی امور کو مفلوج کر دیا ہے اور وہ قانون کی حکمرانی پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ان کو حکومت پر قبضہ کرنے سے ہر قیمت پر روکنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ شمالی کوریا نے گزشتہ برس ملک کے الیکشن کمیشن کو ہیک کر لیا تھا۔ لیکن الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے تحقیقات میں تعاون سے انکار کر دیا تھا۔
جنوبی کوریا میں الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے۔
صدر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے سسٹم کا معائنہ کرنے کی بھی اجازت نہیں دی تاکہ اس کی شفافیت کو محفوظ بنایا جا سکے۔
ان کے بقول الیکشن کمیشن کا انکار اپریل 2024 میں ہونے والے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھانے کے لیے کافی ہے۔
انہوں نے اسی کو ملک میں مارشل لا لگانے کی وجہ بھی قرار دیا۔
SEE ALSO: جنوبی کوریا میں مارشل لا ناکام کیوں ہوا؟واضح رہے کہ رواں برس اپریل میں ہونے والے انتخابات میں صدر یون سک یول کی جماعت کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جب کہ اپوزیشن کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کو ایوان پر کنٹرول کا موقع مل گیا۔
جنوبی کوریا کے ایک رکنی ایوان سے اپوزیشن کو مواخذے کی تحریک کی منظوری کے لیے لیے حکومتی جماعت پی پی پی کے آٹھ ارکان کی حمایت درکار ہو گی۔ جنوبی کوریا کے آئین کے مطابق دو تہائی ارکان کی اکثریت سے تحریک کا منظور ہونا لازمی ہے۔ یوں 300 کے ایوان میں 200 ارکان کے ووٹ درکار ہوں گے جب کہ اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 192 ہے۔
صدر یون سک یول کے خطاب سے چند لمحے قبل حکومتی جماعت پی پی پی کے ایک رہنما ہان ڈونگ ہُن نے بیان دیا کہ صدر یون سے اختیار چھیننا پڑے گا اور اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ ان کی جماعت مواخذے کی تحریک کی حمایت کرے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے مارشل لا کی ناکامی کے بعد وزیرِ دفاع مستعفی ہو گئے تھے۔ ان کی تجویز پر ہی صدر نے مارشل لا لگایا تھا۔ سابق وزیرِ دفاع کم یونگ ہیئن کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ وہ اب تک واحد شخص ہیں جن کو مارشل لا کے بعد حراست میں لیا گیا ہے۔
کم یونگ ہیئن نے گزشتہ روز دورانِ حراست خودکشی کی بھی کوشش کی تھی۔ تاہم حکام نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔
اس رپورٹ میں شامل بیشتر معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔