شمالی کوریا کے بارے میں پڑوسی ملک کی تشویش

جنوبی کوریا کے صدر قوم سے الوداعی خطاب کررہے ہیں

جنوبی کوریا کا کہنا ہے کہ اس کے میزائل اور ہتھیار شمال کو ایسے انجام کی طرف لے جارہے ہیں جس سے کوئی مفر نہیں۔
بین الاقوامی برادری شمالی کوریا کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے پر بحث کر رہی ہے اور جنوبی کوریا کے سبکدوش ہونے والے لیڈر نے پیانگ یانگ کو انتباہ کیا ہے کہ اس کے بس گنتی کے دن باقی رہ گئے ہیں ۔

اپنا عہدہ چھوڑنے سے چھ روز قبل قوم کے نام الوداعی تقریر میں جنوبی کوریا کے صدر لی میونگ باک نے پیانگ یانگ کو انتباہ کیا کہ اس کے میزائل اور ہتھیار، شمال کو ایسے انجام کی طرف لے جا رہے ہیں جس سے کوئی مفر نہیں۔

‘‘وہ اپنے ساتھیوں پر زور دے رہےہیں کہ فوری طور پر جزیرہ نما کوریا کو دوبارہ متحد کرنے کی تیاری کریں۔ اگرچہ شمالی کوریا کی حکومت تبدیلی لانے سے انکار کر رہی ہے، لیکن اس کے شہریوں میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے اور اس عمل کو کوئی نہیں روک سکتا۔’’

تاہم ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ بقیہ دنیا سے الگ تھلگ شمالی کوریا میں شہری کوئی احتجاج کر رہے ہوں اگرچہ انسانی حقوق کی جد و جہد کرنے والے کہتے ہیں کہ اس کا شمار دنیا کی انتہائی ظالمانہ مملکتوں میں ہوتا ہے۔

گزشتہ مہینوں کے دوران شمالی کوریا نے ایک راکٹ مدار میں چھوڑا ہے اور اس نے تیسرے نیوکلیئر بم کا زیرِ زمین کامیاب تجربہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

نیو یارک میں چینی اور امریکہ سفارتکاروں کے درمیان جنہیں اس تنازع میں اہم کردار سمجھا جاتا ہے، شمالی کوریا پر اقوامِ متحدہ کی نئی پابندیوں کے بارے میں مذاکرات ہو رہے ہیں۔

سیول میں آج کل ایک اجتماع ہو رہا ہے جس میں شمالی کوریا کی طرف سے اقوامِ متحدہ کی ان قرار دادوں کی مسلسل خلاف ورزی کے بارے میں مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے جن کے تحت اسے بیلسٹک میزائل اور نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری کی ممانعت ہے۔

آسن نیوکلیئر فورم کے ایجنڈے میں سر فہرست شمالی کوریا کا مسئلہ ہے ۔ دانشوروں اور سفارتکاروں کے درمیان بظاہر اس بارے میں اختلافِ رائے ہے کہ سفارتی سطح پر اب تک جو ناکامی ہوئی ہے اس کا الزام کسے دیا جائے اور اگلا قدم کیا ہو۔

یو ایس-کوریا انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر ریسرچ اسکالر جیول وٹ نے کہا ہے کہ امریکہ کو اپنی کمزور پابندیوں اور کمزور سفارتکاری کی موجودہ حکمت عملی کا از سرِ نو جائزہ لینا چاہیئے۔ وٹ امریکی محکمۂ خارجہ کے سابق عہدے دار ہیں جنھوں نے نیوکلیئر اسلحہ کے کنٹرول اور شمالی کوریا کے مسائل پر کافی کام کیا ہے۔

گیری سیمور اوباما انتظامیہ کی پہلی مدت کے دوران وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں پر کنٹرول کے منتظم تھے۔ وہ کہتےہیں کہ جہاں تک شمالی کوریا کا تعلق ہے واشنگٹن کے پاس اس کے خلاف کارروائی کرنے کے راستے محدود ہیں۔

‘‘فوجی طاقت کا استعمال کوئی اچھا راستہ نہیں کیوں اس طرح جزیرہ نمائے کوریا میں وسیع پیمانے پر جنگ چھڑ سکتی ہے۔ پابندیاں لگانا مشکل ہے کیوں کہ شمالی کوریا بالکل الگ تھلگ ہے اور چین اس کی پشت پناہی کرتا ہے۔ سفارتکاری میں شمالی کوریا کے ساتھ ہمارا تجربہ بہت تلخ ہے کیوں انھوں نے جو بھی سمجھوتہ کیا، اس میں دھوکے بازی سے کام لیا یا وہ اس سے مکر گئے۔’’

سیول کے فورم میں شامل سرکاری پارٹی سے تعلق رکھنے والے قانون ساز جینگ مونگ جان کہتے ہیں کہ ان کے ملک کو ایسا راستہ اختیار کرنے کے بارے میں سوچنا ہو گا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ راستہ یہ ہے کہ ممکن ہے جنوبی کوریا کو خود اپنا نیوکلیئر اسلحہ کا ذخیرہ تیار کرنا پڑے۔ صرف اسی طریقے سے شمالی کوریا کے ساتھ کوئی بڑا سودا کیا جا سکتا ہے۔

جینگ کہتے ہیں کہ امریکہ نے اپنی نیوکلیئر طاقت کے ذریعے جنوبی کوریا کو جو تحفظ فراہم کیا ہوا ہے وہ ایک پھٹی ہوئی چھتری کی مانند ہے جسے مرمت کی ضرورت ہے۔

جنوبی کوریا کے رپورٹرز اس فورم میں موجود لوگوں سے مسلسل یہ پوچھ رہے ہیں کہ جینگ نے اور جنوبی کوریا کے دوسرے ممتاز لوگوں نے جو یہ بیانات دیے ہیں کہ سول کو خود اپنے نیوکلیئر ہتھیار تیار کرنے چاہئیں، یا واشنگٹن سے کہنا چاہیئے کہ وہ اپنے نیوکلیئر ہتھیار جزیرہ نما کوریا پر نصب کرے، ان کے بارے میں وہ کیا کہتے ہیں۔

میک آرتھر فاؤنڈیشن کے صدر رابرٹ گلئیشی کہتے ہیں کہ فوجی نقطۂ نظر سے، امریکہ کے نیوکلیئر ہتھیاروں کی جنوبی کوریا میں کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جنوبی کوریا کا خود اپنا نیوکلیئر بم بنانا، اور بھی زیادہ غلط فیصلہ ہو گا۔

‘‘یہ ایک سنگین غلطی ہو گی ۔ ظاہر ہے کہ جنوبی کوریا کو جس نے نیوکلیئر اسلحہ کے عدم پھیلاؤ کے سمجھوتے پر دستخط کر رکھے ہیں، ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے وہی فیصلہ کرنا ہوگا جو اس کے اپنے مفاد میں ہو۔ اور میرا خیال یہ ہے کہ نیوکلیئر ہتھیاروں کا حصول جنوبی کوریا کے مفادات کے حق میں نہیں ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایسا کیا گیا تو اس کے نتائج جنوبی کوریا کے لیے اور علاقے کے لیے نقصان دہ اور منفی ہوں گے۔’’

بہت سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ موجودہ بحران کو حل کرنے کے لیے بیجنگ کا تعاون انتہائی اہم ہے ۔

شمالی کوریا کی بین الاقوامی تجارت پہلے ہی بہت کم ہے اور اسے قائم رکھنا اس کے لیے اشد ضروری ہے ۔ چین اگر چاہے تو اس تجارت اور اس سے متعلق مالیاتی سودوں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔

پیانگ یانگ کی تازہ اشتعال انگیزی پر اس سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ لیکن چینی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان کی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ شمالی کوریا کے لیے حالات اتنے مشکل ہو جائیں کہ حکومت ناکام ہو جائے ۔ اگر ایسا ہوا تو چین کی سرحد پر انسانی مسائل کا بحران پیدا ہو جائے گا، اور ایک متحد کوریا کے قیام کا امکان , جو امریکہ کا اتحادی ہو گا، روشن ہو جائے گا۔