جنوبی کوریا کے نومنتخب صدر امریکہ کے ساتھ جامع تعلقات استوار کرنے خواہاں

یون سک یوئیل، فائل فوٹو

جنوبی کوریا کے نومنتخب صدر یون سک یوئیل اپنی پانچ سالہ صدارت کے دور میں جہاں عالمی امور میں ملک کے کردار کو پہلے سے توانا کرنے کے خواہش مند ہیں وہیں امریکہ کے ساتھ بھی جامع تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔

یون سک یوئیل رواں ماہ 21 مئی کو امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے ملاقات کر رہے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ سول میں ہونے والی ملاقات دونوں ممالک کی معیشت کے مابین مساوات پر مبنی تعلقات قائم کرنے میں پہلا قدم ثابت ہو سکتی ہے۔

یون چاہتے ہیں کہ سات دہائیوں پر مبنی امریکہ اور جنوبی کوریاکے تعلقات کا اعادہ کیا جائے جب کہ موجودہ صدر مون جئے اُن نے 2017 میں منتخب ہونے کے بعد شمالی کوریا سے تعلقات بہتر کرنے پر توجہ مرکوز رکھی تھی۔

SEE ALSO: بھارتی براہموس میزائل کا واقعہ، پاکستانی میزائل بنانے والوں کی عید ہو گئی ہوگی ، ماہرین

رواں سال اپریل کے اواخر میں یون نے وائس آف امریکہ کی کورین سروس کو دیے گئے انٹرویو میں امریکہ کوریا تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنوبی کوریا کو نہ صرف امریکی پالیسیوں کی حمایت کرنی چاہیے بلکہ اس سلسلے میں عملی اقدامات بھی کرنے چاہیئں۔

ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے پیش رو جب مئی 2021 میں بائیڈن سے ملے تو دونوں سربراہوں نے محض کرونا وائرس کی ویکسین سے متعلق بات چیت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک اپنے تعلقات کو جامع حیثیت دیں جب کہ کواڈ اور دوسرے گروپس میں تعاون کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی اور موسمیاتی تبدیلی میں بھی معاونت کریں۔

SEE ALSO: شمالی کوریا کا 2017 کے بعد پہلی بار بین البراعظمی میزائل کا تجربہ

بائیڈن انتظامیہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ سیمی کنڈکٹر چپ کی پیداوار چین سے مسابقت کے لیے بہت اہم ہے۔ اس سلسلے میں وہ یون سے ملاقات کے ساتھ ساتھ سول سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر سام سنگ الیکٹرونکس کے پیونگٹیک میں قائم پلانٹ کا بھی دورہ کریں گے۔

موسمیاتی تبدیلی کا معاملہ بھی بائیڈن انتظامیہ کے لیے بہت اہم ہے اور دنیا کی دسویں بڑی معیشت اور کاربن کے اخراج میں نویں نمبر پر ہوتے ہوئے جنوبی کوریا پیرس معاہدے پر عمل درآمد میں ابھی تک سست روی کا شکار ہے۔

یون کا کہنا تھا کہ جنوبی کوریا اور امریکہ کے اتحاد میں سیکیورٹی کے معنی کو عسکری سیکیورٹی سے بڑھا کر اس میں معیشت، نئی ٹیکنالوجی اور رسد کے نیٹ ورک کی سلامتی سمیت موسمیاتی تبدیلی اور صحت جیسے عالمی مسائل کو بھی شامل کرنا چاہیے تاکہ ان کے بقول تعلقات کو مزید پھیلا کر اس اتحاد کو مربوط کیا جا سکے۔