وزیراعظم چنگ کا کہنا تھا کہ وہ پہلے ہی یہ منصب چھوڑنا چاہتے تھے لیکن ان کے بقول امداد اور تلاش کی کارروائیوں کی نگرانی اس وقت کی ترجیح تھی۔
جنوبی کوریا میں بحری جہاز ڈوبنے پر لوگوں کے غم و غصے پر وزیراعظم چنگ ہونگ وون نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔
یہ جہاز 16 اپریل کو ملک کے جنوب مغربی ساحل کے قریب ڈوب گیا تھا اور اس میں ڈیڑھ سو کے قریب لوگ ہلاک اور اتںی ہی تعداد میں لاپتا ہیں۔ جہاز پر سوار افراد میں اکثریت اسکول کے طلبا کی تھی۔
وزیراعظم چنگ نے اتوار کو ٹی وی پر اپنے مختصر خطاب میں مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے ہی یہ منصب چھوڑنا چاہتے تھے لیکن ان کے بقول امداد اورتلاش کی کارروائیوں کی نگرانی اس وقت کی ترجیح تھی اور وہ منصب چھوڑنے سے قبل مدد کرنا چاہتے تھے۔
جنوبی کوریا کی صدر پارک گئیون ہی کا کہنا ہے کہ وہ وزیراعظم کا استعفیٰ منظور کریں گی لیکن جب تک کشتی کے حادثے کا معاملہ پوری طرح حل نہیں ہو جاتا وہ ایسا نہیں کریں گی۔
تاحال اس کشتی کے غرقاب ہونے کی اصل وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے لیکن اس واقعے سے جنوبی کوریا میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس بحری جہاز کے کپتان کو پہلے ہی حراست میں لیا جاچکا ہے۔
مستعفی ہونے والے وزیراعظم حادثے کے اگلے ہی روز مسافروں کے اہل خانہ سے ملنے پہنچے تھے لیکن وہاں ان کے خلاف شدید نعرے بازی ہوئی اور انھیں پانی کی بوتل سے نشانہ بنانے کی کوشش بھی کی گئی۔
حکام نے اتوار کو اس حادثے میں 187 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
یہ جہاز 16 اپریل کو ملک کے جنوب مغربی ساحل کے قریب ڈوب گیا تھا اور اس میں ڈیڑھ سو کے قریب لوگ ہلاک اور اتںی ہی تعداد میں لاپتا ہیں۔ جہاز پر سوار افراد میں اکثریت اسکول کے طلبا کی تھی۔
وزیراعظم چنگ نے اتوار کو ٹی وی پر اپنے مختصر خطاب میں مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے ہی یہ منصب چھوڑنا چاہتے تھے لیکن ان کے بقول امداد اورتلاش کی کارروائیوں کی نگرانی اس وقت کی ترجیح تھی اور وہ منصب چھوڑنے سے قبل مدد کرنا چاہتے تھے۔
جنوبی کوریا کی صدر پارک گئیون ہی کا کہنا ہے کہ وہ وزیراعظم کا استعفیٰ منظور کریں گی لیکن جب تک کشتی کے حادثے کا معاملہ پوری طرح حل نہیں ہو جاتا وہ ایسا نہیں کریں گی۔
تاحال اس کشتی کے غرقاب ہونے کی اصل وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے لیکن اس واقعے سے جنوبی کوریا میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس بحری جہاز کے کپتان کو پہلے ہی حراست میں لیا جاچکا ہے۔
مستعفی ہونے والے وزیراعظم حادثے کے اگلے ہی روز مسافروں کے اہل خانہ سے ملنے پہنچے تھے لیکن وہاں ان کے خلاف شدید نعرے بازی ہوئی اور انھیں پانی کی بوتل سے نشانہ بنانے کی کوشش بھی کی گئی۔
حکام نے اتوار کو اس حادثے میں 187 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔