صنعتی مرکز میں مقیم جنوبی کوریا کے آخری 50 کارکنوں کی ٹیم کو پیر کو وطن واپس پہنچنا تھا۔
واشنگٹن —
جنوبی کوریا نے کہا ہے کہ شمالی کوریا میں واقع مشترکہ صنعتی زون میں کام کرنے والے اس کے شہریوں کی واپسی بعض انتظامی امور کے باعث موخر کردی گئی ہے۔
جنوبی کوریا کی 'یونی فکیشن منسٹری' کے ایک ترجمان کے مطابق دونوں ممالک کے حکام کے درمیان 'کائیسونگ انڈسٹریل کمپلیکس' کے بعض انتظامی امور پر بات چیت آخری مراحل میں ہے۔
خیال رہے کہ صنعتی مرکز میں مقیم جنوبی کوریا کے آخری 50 کارکنوں کی ٹیم کو پیر کو وطن واپس پہنچنا تھا۔ مرکز سے جنوبی کوریا کے باشندوں کی واپسی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان موجود آخری رابطہ بھی منقطع ہوجائےگا۔
جنوبی کوریا کے حکام نے پیانگ یانگ کی جانب سے صنعتی کمپلیکس میں سرگرمیوں کی بحالی کے لیے مذاکرات کی پیش کش مسترد کرنے کے بعد جمعے کو مرکز میں موجود اپنے تمام شہریوں کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔
'کائیسونگ' کا مشترکہ صنعتی مرکز 2004ء میں قائم کیا گیا تھا جہاں جنوبی کوریا کی 100 سے زائد کمپنیوں کی فیکٹریوں میں شمالی کوریا کے لگ بھگ 53 ہزار کارکن کام کرتے ہیں۔
فروری میں شمالی کوریا کے جوہری تجربے اور اس پر عالمی برادری کے ردِ عمل کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے تھے جس کے بعد پیانگ یانگ نے رواں ماہ اپنے شہریوں کو صنعتی مرکز میں کام سے روک دیا تھا۔
ایک معاہدے کے تحت قائم کیا جانے والا یہ صنعتی مرکز شمالی کوریا کے لیے زرِ مبادلہ کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے جب کہ جنوبی کوریا کو اس کے ذریعے سستی اور کم لاگت کی مصنوعات حاصل ہورہی تھیں۔
دونوں ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی اور جنوبی کوریا کے تمام شہریوں کی وطن واپسی کے بعد شمالی کوریا کی سرحد کے 10 کلومیٹر اندر واقع اس صنعتی مرکز کے مستقبل پر سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔
جنوبی کوریا کی صدر پارک گوئن ہئی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت ان صنعتوں کی مدد کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی جنہیں کشیدگی کے باعث 'کائیسونگ' میں اپنی سرگرمیاں بند کرنا پڑی ہیں۔
اس صنعتی مرکز کے ایک دہائی قبل قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں ممالک نے اپنے اپنے شہریوں کو یہاں کام سے روک دیا ہے جس کے باعث صنعتی سرگرمیاں مکمل طور پر معطل ہوگئی ہیں۔
جنوبی کوریا کی 'یونی فکیشن منسٹری' کے ایک ترجمان کے مطابق دونوں ممالک کے حکام کے درمیان 'کائیسونگ انڈسٹریل کمپلیکس' کے بعض انتظامی امور پر بات چیت آخری مراحل میں ہے۔
خیال رہے کہ صنعتی مرکز میں مقیم جنوبی کوریا کے آخری 50 کارکنوں کی ٹیم کو پیر کو وطن واپس پہنچنا تھا۔ مرکز سے جنوبی کوریا کے باشندوں کی واپسی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان موجود آخری رابطہ بھی منقطع ہوجائےگا۔
جنوبی کوریا کے حکام نے پیانگ یانگ کی جانب سے صنعتی کمپلیکس میں سرگرمیوں کی بحالی کے لیے مذاکرات کی پیش کش مسترد کرنے کے بعد جمعے کو مرکز میں موجود اپنے تمام شہریوں کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔
'کائیسونگ' کا مشترکہ صنعتی مرکز 2004ء میں قائم کیا گیا تھا جہاں جنوبی کوریا کی 100 سے زائد کمپنیوں کی فیکٹریوں میں شمالی کوریا کے لگ بھگ 53 ہزار کارکن کام کرتے ہیں۔
فروری میں شمالی کوریا کے جوہری تجربے اور اس پر عالمی برادری کے ردِ عمل کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے تھے جس کے بعد پیانگ یانگ نے رواں ماہ اپنے شہریوں کو صنعتی مرکز میں کام سے روک دیا تھا۔
ایک معاہدے کے تحت قائم کیا جانے والا یہ صنعتی مرکز شمالی کوریا کے لیے زرِ مبادلہ کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے جب کہ جنوبی کوریا کو اس کے ذریعے سستی اور کم لاگت کی مصنوعات حاصل ہورہی تھیں۔
دونوں ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی اور جنوبی کوریا کے تمام شہریوں کی وطن واپسی کے بعد شمالی کوریا کی سرحد کے 10 کلومیٹر اندر واقع اس صنعتی مرکز کے مستقبل پر سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔
جنوبی کوریا کی صدر پارک گوئن ہئی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت ان صنعتوں کی مدد کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی جنہیں کشیدگی کے باعث 'کائیسونگ' میں اپنی سرگرمیاں بند کرنا پڑی ہیں۔
اس صنعتی مرکز کے ایک دہائی قبل قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں ممالک نے اپنے اپنے شہریوں کو یہاں کام سے روک دیا ہے جس کے باعث صنعتی سرگرمیاں مکمل طور پر معطل ہوگئی ہیں۔