جنوبی افریقہ میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے.
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ ریپ اور قتل کے واقعات کے بعد شہریوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ 'سونکے جینڈر جسٹس' کے عہدیدار گیون سوگواقے نے اس صورت حال کو وبا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین کا قتل اور ان پر تشدد اس بات کا ثبوت ہے کہ اب خواتین رات کو ہی نہیں بلکہ دن میں بھی غیر محفوظ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے خلاف دن کی روشنی میں بھی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔
گزشتہ جمعے کو ایک خاتون باکسنگ چیمپیئن کو پولیس افسر نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا جس کے بعد خواتین کے تحفظ سے متعلق بحث زور پکڑتی جا رہی ہے۔
اسی طرح پیر کے روز ایک شخص نے ڈاک خانے میں کیپ ٹاؤن یونیورسٹی کی طالبہ پر حملہ کیا تھا۔ مبینہ طور طالبہ کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوبی افریقہ میں ہر مہینے 1500 سے زیادہ افراد کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ جنوبی افریقہ تشدد اور عدم مساوات کی تاریخ رکھتا ہے۔
'سونکے جینڈر جسٹس' کے عہدیداروں نے بتایا ہے کہ ہمیں فوجداری نظام انصاف سے زیادہ احتساب کرنے کی ضرورت ہے جبکہ پرتشدد جرائم کے مرتکب افراد کو بھرپور قانونی طاقت کے ساتھ حراست میں لے کر کارروائی کرنا پڑے گی۔
ادھر سوشل میڈیا پر ہزاروں شہریوں نے انصاف کے ہیش ٹیگ کے ساتھ فوجداری قوانین میں اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ چار لاکھ سے زائد افراد نے ایک پٹیشن پر دستخط کیے بھی ہیں۔
پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کو پھانسی کی سزا کا قانون بنایا جائے۔
کچھ لوگوں نے خاتون باکسر کے قتل کیس کو اوپن کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ یہ قتل اگست کے آخری دنوں میں ہوا تھا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق جنوبی افریقہ میں 2018 میں تقریباً 3000 خواتین کو قتل کیا گیا یعنی ہر ایک گھنٹے بعد تین خواتین قتل ہوتی رہی ہیں۔