پاکستان کی نوبل انعام یافتہ خاتون ملالہ یوسف زئی نے دھمکیاں ملنے پر سوال اٹھایا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کس طرح فرار ہوئے اور وہ کس طرح سوشل میڈیا پر دھمکیاں دے رہے ہیں؟ تاہم حکومتِ پاکستان کا کہنا ہے کہ احسان اللہ احسان کے جس اکاؤنٹ سے ملالہ کے لیے دھمکی آمیز ٹوئٹ کی گئی وہ ایک جعلی اکاؤنٹ تھا۔
احسان اللہ احسان کے مبینہ اکاؤنٹ سے ملالہ یوسف زئی کے ایک حالیہ انٹرویو پر اُنہیں دھمکیاں دی گئی تھیں۔
ملالہ نے منگل کو ان دھمکیوں کا ذکر اپنی ٹوئٹ میں کیا اور پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اور پاکستان فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ شخص کالعدم تحریک طالبان کا سابق ترجمان ہے جس نے مجھ پر اور بہت سے بے گناہوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ شخص سوشل میڈیا پر دھمکیاں دے رہا ہے۔ یہ شخص فرار کیسے ہوا؟
جس اکاؤنٹ سے ملالہ کو دھمکی موصول ہوئی اُسے ٹوئٹر انتظامیہ نے معطل کر دیا ہے۔
ملالہ یوسف زئی نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ " پاکستان ہمیشہ سے میرا پہلا گھر ہے جو مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔"
ملالہ کے اس بیان پر احسان اللہ احسان کی طرف سے جواب دیا گیا کہ "ملالہ جی آپ جلد اپنے گھر تشریف لائیں، آپ اور آپ کے والد سے ابھی بہت سارا حساب باقی ہے۔ آپ کے ذمے جو قرض ہے وہ آپ سے وصول کرنا ہے۔ اس دفعہ حساب کتاب کے لیے ماہر شخص بھیجا جائے گا تاکہ کوئی شک باقی نہ رہے۔
اس بارے میں وزیرِ اعظم کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ڈاکٹر ارسلان خالد نے ٹوئٹ کیا کہ احسان اللہ احسان نامی ٹوئٹر اکاؤنٹ جعلی ہے اور اس اکاؤنٹ کی تفصیل ٹوئٹر انتظامیہ کو بھجوا دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرینس یعنی مکمل عدم برداشت کی پالیسی ہے۔ شر پسند نفرت پھیلانے کے لیے اس طرح کے جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس استعمال کرتے ہیں جس کی کسی طور پر اجازت نہیں دی جائے گی۔
ملالہ کے والد ضیاالدین یوسف زئی نے ڈاکٹر ارسلان خالد کی طرف سے احسان اللہ احسان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کو جعلی کہنے پر اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "آپ کا نوٹس لینے پر مشکور ہیں لیکن ہمیں مصدقہ ذریعے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ اکاؤنٹ احسان اللہ احسان کا ہی تھا۔"
ضیاالدین یوسف زئی نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اہم سوال یہ ہے کہ وہ مفرور کس طرح ہوا؟
ملالہ کے ٹوئٹ پر ردِعمل
سوشل میڈیا پر ملالہ کو دھمکی دی جانے کے بعد اُن کی حمایت اور مخالفت میں بہت سے ٹوئیٹ کیے جا رہے ہیں۔
بعض افراد ملالہ کی طرف سے اس ٹوئٹ کو ایف اے ٹی ایف (عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کے انسداد کی تنظیم) کے اجلاس سے منسلک کر رہے ہیں کہ ملالہ پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جب کہ بعض افراد نے ملالہ کی بھرپور حمایت کی کہ وہ ان دھمکیوں سے مرعوب نہ ہوں۔
یاد رہے کہ احسان اللہ احسان گزشتہ برس پاکستان فوج کی تحویل سے فرار ہو گئے تھے اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس وقت ترکی میں موجود ہیں۔ لیکن اب تک کسی بھی طرف سے اس بات کی تصدیق نہیں کی جا سکی۔
تاہم احسان اللہ احسان مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے پاکستان میں موجود خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے بعض صحافیوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں اور اُنہیں خبریں بھیجتے رہتے ہیں۔
احسان اللہ احسان کے فرار کی تحقیقات کہاں تک پہنچی؟
احسان اللہ احسان کے فرار کے بعد اُس وقت کے وزیرِ داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ نے فرار کے کئی روز بعد صحافیوں سے بات چیت کے دوران اس کی تصدیق کی تھی اور تحقیقات کا کہا تھا۔ بعدازاں پاکستان فوج کے ترجمان نے بھی احسان اللہ احسان کے فرار کی تصدیق کر دی تھی۔
ٹی ٹی پی کے ترجمان کے فرار ہونے کی تحقیقات کہاں تک پہنچی اور احسان اللہ احسان کیسے فرار ہوا؟ اس بارے میں کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی کوئی چیز سامنے نہیں آسکی۔
SEE ALSO: پاکستان نے احسان اللہ احسان کے فرار کی تصدیق کر دیاحسان اللہ احسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے پاکستان فوج کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت گرفتاری پیش کی تھی جس کے بعد ان کا ٹی وی پر ایک انٹرویو بھی نشر کیا گیا تھا جس میں انہوں نے دہشت گردی کی کئی کارروائیوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔
لیکن تقریباً ڈھائی سال سے زیادہ عرصہ تک فوج کی تحویل میں رہنے کے بعد وہ اچانک فرار ہو گیا اور اس کے بعد پاکستان فوج پر مختلف الزامات عائد کرتا رہا۔
ملالہ پر حملہ
نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کو نو اکتوبر 2012 کو اُن کے گھر کے قریب مینگورہ شہر میں اسکول سے واپسی کے وقت ان کی وین پر حملہ کر کے نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی۔
سر میں گولی لگنے سے ملالہ شدید زخمی ہوئیں جنہیں پہلے راول پنڈی اور پھر برطانیہ کے شہر برمنگھم منتقل کیا گیا۔ کئی ماہ کے علاج کے بعد ملالہ یوسف زئی تندرست ہو کر نارمل زندگی گزار رہی ہیں اور رواں برس انہوں نے اپنی گریجویشن بھی مکمل کی ہے۔
ملالہ پاکستان اور دنیا بھر میں بچیوں کی تعلیم کے لیے پہچانی جاتی ہیں۔ ملالہ یوسف زئی کو نوبل پرائز کے علاوہ پاکستان اور دنیا کے مختلف ملکوں میں کئی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔