امریکی فوج میں کچھ سکھ فوجیوں کو داڑھی رکھنے کے لیے استثنیٰ

امریکی فوج کے ڈاکٹر میجر کمل کالسی

1980 کی دہائی میں ظاہری شکل و صورت کے معیار نافذ ہونے سے پہلے سکھ کئی دہائیوں تک پگڑیوں اور داڑھیوں کے ساتھ امریکہ کی فوج میں خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔

امریکہ کی ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی میں داخل ہوتے وقت کیپٹن سمرت پال سنگھ نے اپنی پگڑی اتاری اور داڑھی مونڈھی تو ان کا خیال تھا کہ وہ اپنے سکھ مذہب کے عقائد پر قائم رہتے ہوئے امریکی فوج میں کام نہیں کر سکتے۔

وہ دن ان کے لیے بہت مشکل تھا مگر انہوں نے اس وقت یہ عزم کیا کہ وہ کسی طرح اپنے مذہب کی طرف واپس آئیں گے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’یہ شدید تکلیف دہ تجربہ اور شدید تکلیف دہ فیصلہ تھا اور میں صرف ایک طریقے سے اس کا جواز پیش کر سکتا تھا اور یہ وعدہ تھا جو میں نے اپنے آپ سے کیا تھا۔ سچ بتاؤں تو میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ کوئی نوجوان اس میں سے گزرے۔‘‘

سنگھ نے ویسٹ پوائنٹ سے گریجوایٹ کیا اور 2010 میں ان کو کمیشن دیا گیا۔ وہ آرمی رینجر بنے اور 2012 میں انہیں افغانستان میں تعینات کیا گیا اور انہیں اپنی خدمات کے لیے برونز سٹار دیا گیا۔ اس دوران وہ فوج کے گرومنگ اور ظاہری شکل و صورت کے معیار پر قائم رہے۔

کیپٹن سمرت پال سنگھ 2010 میں ویسٹ پوائنٹ سے گریجوایشن کے موقع پر صدر براک اوباما سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔

گزشتہ سال پینٹاگان میں سکھ تہوار بیساکھی کی ایک تقریب میں انہوں نے دیکھا کہ کچھ سکھ فوجی پگڑیوں اور داڑھیوں کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ ان فوجیوں نے فوج کے معیار سے استثنیٰ حاصل کیا تھا۔

اس کے بعد سمرت پال سنگھ نے بھی مذہبی بنیادوں پر استثنیٰ کے لیے درخواست دی اور مارچ میں انہیں یہ اجازت دے دی گئی۔ ویسٹ پوائنٹ میں داخل ہونے کے دس سال بعد سمرت پال نے اپنی داڑھی دوبارہ بڑھا لی ہے اور فخریہ پگڑی پہنتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’دس سال بعد اپنا وعدہ پورا کرنا، اپنے آپ سے سچا ہونا بہت زبردست احساس ہے۔‘‘

تاہم امریکی محکمہ دفاع کے خلاف قانونی کارروائی کے بعد عارضی استثنیٰ حاصل کرنے والے سمرت پال سنگھ اور تین دیگر امریکی فوجیوں کے لیے یہ سفر مختصر اور آسان نہیں تھا۔

اس استثنیٰ پر نظر ثانی کے بعد اسے کسی بھی وقت ختم کیا جا سکتا ہے۔

1980 کی دہائی میں ظاہری شکل و صورت کے معیار نافذ ہونے سے پہلے سکھ کئی دہائیوں تک پگڑیوں اور داڑھیوں کے ساتھ امریکہ کی فوج میں خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔

استثنیٰ حاصل کرنے والے ایک اور سکھ میجر کمل کالسی کا کہنا ہے کہ ’’پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں اسی ہزار سکھ اتحادی افواج کے ساتھ لڑتے ہوئے مارے گئے۔ ان اسی ہزار کو کسی استثنیٰ کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ مارے گئے، انھوں نے اپنا خون، پسینہ اور آنسو دیے تاکہ آج ہم آزاد ہوں۔‘‘

​استثنیٰ حاصل کرنے کے لیے انہیں وزیر دفاع کو لکھے گئے ایک خط پر کانگریس کے 50 ارکان اور 15,000 دیگر افراد کے دستخط حاصل کرنے پڑے۔

میجر کمل کالسی افغانستان کے صوبہ ہلمند میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

امریکی فوج میں ڈاکٹر کے طور پر کام کرنے والے میجر کمل کالسی کا کہنا ہے کہ برطانیہ، بھارت، آسٹریلیا اور کینیڈا میں اس طرح کی پابندیوں کے بغیر لاتعداد سکھ فوجی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

انہیں بھی 2011 میں افغانستان کے صوبے ہلمند میں لڑائی میں زخمی ہونے والے درجنوں فوجیوں اور عام شہریوں کا علاج کرنے پر برونز سٹار دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی زخمی فوجی ان کے پاس علاج کے لیے آتا تو وہ یہ نہیں پوچھتا تھا کہ ’’آپ کس مذہب سے ہیں؟‘‘

سمرت پال سنگھ، کمل کالسی اور دیگر سکھ فوجیوں کو امید ہے کہ سکھ فوجیوں کو دیے جانے والے عارضی استثنیٰ سے موجودہ پالیسی میں تبدیلی کی راہ ہموار ہو گی اور سکھ فوجیوں کو مذہب کے مطابق اپنی شباہت برقرار رکھنے کے لیے مستقل قوانین بنائے جائیں گے۔

انہیں امید ہے کہ اس کے بعد انہیں اپنے مذہب اور اپنے ملک کے درمیان انتخاب نہیں کرنا پڑے گا۔