ہفتے کے سات دنوں میں تین چھٹیوں سے کیا ملازمین کی کارکردگی بڑھائی جاسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے برطانیہ میں اب تک کا سب سے بڑا تجربہ کیا جارہا ہے۔
یہ تجربہ یا پائلٹ چھ ماہ تک جاری رہے گا اوراس میں برطانیہ کی 60 کمپنیوں کے تین ہزار ملازمین شریک ہورہے ہیں۔کام کرنے کے دن کم کرکے پیداوار یا کام بڑھانے کے تصور سے متعلق اسے اب تک کا سب سے بڑا تجربہ قرار دیا جارہا ہے۔
اس سے قبل اسپین، آئس لینڈ، امریکہ اور کینیڈا میں بھی یہ تجربہ کیا جاچکا ہے۔ اس تجربے کے محرک گروپ کے مطابق یہ اس تصور کے لیے کیا جانے والا دنیا کاسب سے بڑا تجربہ ہے۔
برطانیہ میں یہ تجربہ ہفتے میں تین چھٹیوں کے لیے مہم چلانے والا گروپ ’فور ڈیز ویک گلوبل‘ کے زیر اہتمام ہورہا ہے۔
گروپ کا کہنا ہے کہ اس تجربے کی مدد سے کمپنیوں کو نئے چیلجنز سے نمٹنے ، نئے طور طریقوں کے تجربات اور ڈیٹا جمع کرنے کا موقع ملے گا۔
’فور ڈیز ویک‘ کے پروگرام مینیجر ایلکس سوجنگ کم پینگ کا کہنا ہے کہ چھوٹے اداروں یا کمپنیوں کے لیے نئے تجربات کرنا نسبتاً آسان ہے۔
برطانیہ میں اس تجربے میں شریک ہونے والی کمپنیوں نے اس ماڈل سے متعلق اس توقع کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کام کے دن کم کرنے سے ان کی پیداوار اور لیبر کی کارکردگی بڑھ جائے گی۔
اس تجربے میں شریک ہونے والی کمپنیوں کو یہ بھی امید ہے کہ کام کے دن کم کرنے سے انہیں اپنے ملازمین کی تعداد برقرار رکھنے میں بھی مدد ملے گی کیوں کہ اس وقت برطانیہ افرادی قوت کی شدید قلت کا سامنا کررہا ہے۔ برطانیہ میں ملازمتوں کی 13 لاکھ اسامیاں خالی ہیں جو ایک ریکارڈ تعداد ہے۔
SEE ALSO: دن میں آٹھ گھنٹے کام اور 'ویک اینڈ' کا تصور کب آیا؟ہفتہ وار چھٹیاں اور کارکردگی
امریکہ کے انٹرنیشنل سوشلسٹ ریویو میگزین میں شائع کردہ امریکی سوشلسٹ اور پولیٹیکل ایکٹیوسٹ یو جین وی ڈیبس کے انٹرنیٹ آرکائیو کے مطابق آٹھ گھنٹے کام کرنے کا تصور پہلی بار انگلینڈ کے صنعت کار رابرٹ اووِن نے 1817 میں تجویز کیا تھا۔
ہسٹری ڈاٹ کام کے مطابق گاڑیاں بنانے والی فورڈ موٹر کمپنی وہ پہلی امریکی کمپنی تھی جس نے اپنے فیکٹری ورکرز کے لیے یکم مئی 1926 سے ہفتے میں پانچ دن 40 گھنٹے کام کرنے کی پالیسی پیش کی تھی۔
اس امریکی کمپنی نے نہ صرف ملازمین کے لیے کام کرنے کے اوقات مقرر کیے بلکہ انہوں نے 1914 میں ملازمین کی نو گھنٹے کی یومیہ اجرت 2.34 ڈالر کو بڑھا کر پانچ ڈالر کرنے کا اعلان کیا۔
کمپنی نے ساتھ ہی ملازمین کے ورکنگ آورز کو نو گھنٹے کے بجائے آٹھ گھنٹے بھی کر دیے ۔ ملازمین کی تنخواہ دُگنی کرنے اور ورکنگ آورز کم کرنے کے بعد کمپنی کی پیداوار اور ملازمین کی کارکردگی میں بھی بہتری دیکھنے میں آئی تھی۔
تاہم انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق ایسے ادارے جہاں ملازمین کے کام کرنے کے لیے پانچ دن مقرر ہیں ان کے لیے ہفتے میں 40 گھنٹے کام کرنے کا معیار مقرر کیا گیا ہے جب کہ ایسے ادارے جہاں ملازمین کے کام کرنے کے لیے چھ دن مقرر ہیں وہاں ملازمین ایک ہفتے کے دوران زیادہ سے زیادہ 48 گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔
موجودہ دور میں کام کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لیے دنیا بھر میں متعدد کمپنیاں ہفتے میں تین دن کی چھٹی کے تجربات کرچکی ہیں۔
سن 2018 میں نیوزی لینڈ کی ٹرسٹ مینجمنٹ کمپنی 'پریپچؤل گارجین' نے اپنے 240 ملازمین کو دو ماہ کے لیے ہفتے میں چار دن کام کرنے اجازت دی تھی۔
SEE ALSO: اتنی تعلیم اس لیے حاصل کی تھی کہ گھر بیٹھ جاؤ؟دو ماہ بعد کمپنی کے ملازمین کی کارکردگی بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ اسٹاف میں دباؤ کی کیفیت میں سات فی صد کمی دیکھنے میں آئی۔
علاوہ ازیں معروف ٹیکنالوجی کمپنی مائیکروسافٹ بھی ہفتے میں چار دن کام کرنے کے حوالے سے ایک تجربہ کر چکی ہے جس کے دل چسپ نتائج سامنے آئے تھے۔
مائیکروسافٹ کمپنی نے 2019 میں اگست کے مہینے میں جاپان میں موجود اپنے دفاتر میں 2300 ملازمین کو ہفتے میں تین دن کی چھٹی کرنے کی اجازت دی۔
اس تجربے کے اختتام پر سامنے آنے والے نتائج سے معلوم ہوا کہ ہفتے میں چار دن کام کرنے سے ملازمین نہ صرف خوش تھے بلکہ اس سے ان کی کارکردگی میں 40 فی صد اضافہ دیکھا گیا۔
اسی طرح اب دنیا میں متعدد کمپنیاں ہفتے میں چار دن کام کے تصور کو اپنا رہی ہیں اور اس سے متعلق تجربات کررہی ہیں۔
سب کے لیے ممکن ہو گا؟
معیشت اور لیبر امور کے ماہر جوناتھن بوائز کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں 80 فی صد حصہ خدمات کے شعبے کا ہے۔ اس لیے یہاں ہفتے میں چار دن کام کرنے کا ماڈل اختیار کرنا آسان ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ لیکن خدمات ، ریٹیل، کھانے پینے کے کاروبار، صحت اور تعلیم کے شعبوں کے لے یہ ماڈل اپنانا بہت مشکل ہوگا۔
SEE ALSO: ایک ہی کمپنی میں 84 برس تک کام کرنے کا عالمی ریکارڈان کے مطابق اہم سوال یہ ہے کہ جس معیشت میں زیادہ تر کام مقدار کے بجائے معیار سے متعلق ہو وہاں اوقاتِ کار میں کمی سے کارکردگی کا اندازہ کیسے لگایا جائے گا؟
ان کا کہنا ہے کہ ہفتے میں چار دن کام کا تجربہ کرنے والی کمپنی کے ملازمین کی تنخواہوں میں کمی نہیں کی جارہی ہے۔ اس لیے زیادہ امکان یہی نظر آتا ہے کہ وہ چار دن میں بھی وہی کارکردگی برقرار رکھیں گے جو پانچ دنوں میں ہوتی تھی۔
کم دن زیادہ نتائج
ہفتے میں کام کے دن کم کرنے کی افادیت پر کتاب ’دی کیس فار اے فور ڈے ویک‘ کے مصنف ایڈن ہارپر کا کہنا ہے جن ممالک نے ہفتے کے دوران اپنے کام کرنے کے گھنٹے کم کیے ہیں وہاں افرادی قوت کی کارکردگی بڑھی ہے۔
وہ اس کے لیے مثال دیتے ہیں کہ برطانیہ کے مقابلے میں ڈنمارک، سوئیڈن اور نیدر لینڈ وغیرہ میں اوقاتِ کار کم ہیں۔ لیکن ورک فورس کی کارکردگی اور نتائج کا جائزہ لیا جائے تو یہ ممالک برطانیہ سے آگے ہیں۔
ڈیٹا بیس کمپنی ’اسٹیٹسٹا‘ برطانیہ میں ہفتے کے دوران ملازمین ساڑھے 36 گھنٹے کام کرتے ہیں جب کہ یونان میں یہ اوسط 40 گھنٹے ہے۔
ایڈن ہارپر کا کہنا ہے کہ یورپ میں سب سے زیادہ کام کرنے کے گھنٹے یونان میں ہیں لیکن وہاں کارکردگی اور پیدوار بھی سب سے کم ہے۔