صومالیہ: کینیا کے 200 فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق

فائل

کینیا کی حکومت نے گزشتہ ماہ صومالیہ کے قصبے العد میں واقع افریقی یونین کی چھاؤنی پر شدت پسند تنظیم الشباب کے حملے میں ہلاک ہونے والے اپنے فوجیوں کی تعداد ظاہر نہیں کی تھی۔

صومالیہ کے صدر حسن شیخ محمد نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ ماہ ملک کےجنوب مغربی علاقے میں افریقی یونین کے ایک فوجی مرکز پر شدت پسندوں کے حملے میں کینیا کے 180 سے 200 تک فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

صدر حسن شیخ نے یہ بیان بدھ کی شب صومالیہ کے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے دیا۔

انٹرویو کے دوران ان سے سوال کیا گیا تھا کہ انہوں نے حملے میں ہلاک ہونےوالے کینیا کے فوجی اہلکاروں کی یاد میں ہونے والی تقریب میں شرکت کیوں کی تھی جو ایک غیر روایتی اقدام تھا۔

میزبان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے صومالی صدر کا کہنا تھا کہ ایک دن میں کسی دوسرے ملک کے 180 سے 200 فوجی اہلکاروں کا اپنی جانیں صومالیہ میں قیامِ امن کے لیے نچھاور کردینا ایک ایسا عمل تھا جس کی تحسین کی جانی چاہیے تھی۔

کینیا کی حکومت نے گزشتہ ماہ صومالیہ کے قصبے العد میں واقع افریقی یونین کی چھاؤنی پر شدت پسند تنظیم الشباب کے حملے میں ہلاک ہونے والے اپنے فوجیوں کی تعداد ظاہر نہیں کی تھی۔

تاہم فوجی حکام نے یہ ضرور بتایا تھا کہ حملے کے وقت چھاؤنی میں ایک فوجی کمپنی تعینات تھی جو عموماً 100 سے 200 فوجی اہلکاروں پر مشتمل ہوتی ہے۔

الشباب کے جنگجووں نے حملے میں کینیا کے 100 سے زیادہ فوجی اہلکار قتل کرنے کا دعویٰ کیا تھا جسے صومالیہ میں تعینات افریقی یونین کے افسران نے مسترد کردیا تھا۔

تاہم کینیا کی مسلح افواج نے صومالی صدر کے اس دعوے کی تردید کرتےہوئے کہا ہے کہ صدرحسن شیخ نے جتنی ہلاکتوں کا دعویٰ کیا ہے وہ ایک کمپنی سے بھی زیادہ ہیں۔

کینیا کی فوج کے ایک ترجمان نے جمعرات کو مقامی روزنامے 'اسٹار' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شاید صومالی صدر نے حملے میں ہلاک ہونے والے الشباب کے جنگجووں کو بھی غلطی سے کینیا کے فوجی اہلکاروں کے ساتھ گن لیا ہے۔

افریقی یونین کے فوجی دستے 2007ء سے صومالیہ میں تعینات ہیں جو وہاں الشباب کے خلاف مقامی فوجی دستوں کی مدد کر رہے ہیں۔ کینیا نے 2011ء میں اپنے فوجی دستے افریقی مشن کے تحت صومالیہ بھیجے تھے جو تاحال وہاں موجود ہیں۔

گزشتہ برس صومالی فوج نے افریقی دستوں کی مدد سے ملک کے وسیع علاقے پر اپنا کنٹرول بحال کرلیا تھا جس کے بعد شدت پسند دور دراز نواحی علاقوں کی طرف فرار ہوگئے تھے۔

لیکن جنگجووں کے حملوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے جو اکثر و بیشتر دارالحکومت موغا دیشو میں سرکاری تنصیبات کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔