صومالیہ: صدارتی محل پر حملہ، نئے سکیورٹی اہل کار مقرر

صومالیہ کے وزیر ِ اطلاعات کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد چار تھی، جن میں سے تین کو سکیورٹی افواج نے ہلاک کیا، جب کہ ایک ڈرائیور زخمی ہوا، جنھیں سرکاری تحویل میں لیا گیا ہے

حکومت صومالیہ نے الشباب کے شدت پسند گروپ کی طرف سے صدارتی محل پر حملے کے بعد پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان کو عہدوں سے برطرف کر دیا ہے۔

وزیر اعظم عبدالولی شیخ احمد نے بدھ کے روز پولیس سربراہ، عبدی حکیم سعید اور قومی انٹیلی جنس کے سربراہ بشیر محمد جمعہ کو معطل کردیا، جس سے ایک ہی روز قبل الشباب کے جنگجوؤں نے محل کے باہر ایک بم دھماکہ کیا اور فائرنگ کرتے ہوئے اندر داخل ہونے کی کوشش کی۔

اس حملے کےدوران، صومالیہ کے صدر حسن شیخ محمود محل سے باہر تھے، اور محفوظ رہے۔

صومالیہ کے وزیر ِ اطلاعات کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد چار تھی، جن میں سے تین کو سکیورٹی افواج نے ہلاک کیا، جب کہ ایک ڈرائیور زخمی ہوا، جنھیں سرکاری تحویل میں لیا گیا ہے۔


پولیس ترجمان، قاسم احمد روبل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کم از کم تین صومالی فوجی زخمی ہوئے۔

حملے کے بعد، ٹیلی ویژن پر اپنے بیان میں، صدر محمود نے اس رپورٹ کو تردید کی کہ وہ محل چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ اپنی رہائش گاہ، ’وِلا صولامیہ‘ میں مقیم ہیں، جسے اُنھوں نے ’محفوظ اور سلامت‘ قرار دیا۔

اُنھوں نے کہا کہ الشباب کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ سرکاری عہدے داروں کو باہر نکال سکے۔ بقول اُن کے، ہم الشباب سے نہیں ڈرتے۔


وزیر اعظم نے محمد شیخ اسماعیل کو نیا پولیس سربراہ اور محمد عبدالاہی حسن کو نیا انٹیلی جنس سربراہ مقرر کیا ہے۔

ساتھ ہی، اُنھوں نے کہلف احمد کو سلامتی کا نیا وزیر نامزد کیا ہے، جو عہدہ دو ماہ سے خالی پڑا ہوا تھا۔

اس سال کے دوران الشباب کا صدارتی محل پر یہ دوسرا حملہ تھا۔

فروری میں ہونے والے پہلے حملے میں صدر محفوظ رہے ، لیکن 17 افراد ہلاک ہوئےتھے۔

صومالیہ میں شدت پسند تنظیم الشباب نے صدارتی محل پر حملہ کیا لیکن حکام کے بقول اسے ناکام بنا دیا گیا جب کہ صدر اور وزیراعظم بالکل محفوظ ہیں۔

عینی شاہدین کے مطابق موغادیشو میں صدارتی محل "ولا صومالیہ" پر متعدد مسلح حملہ آوروں نے اس وقت دھاوا بولا جب وہاں لوگ روزہ افطار کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔

صدارتی دفتر نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ "حملے کو ناکام بنادیا گیا اور علاقہ محفوظ ہے، اس پر صومالیہ کو فوج اور افریقی یونین فورسز کا شکریہ۔"

حکومت کے ترجمان رضوان حاجی نے وائس آف امریکہ کی صومالی سروس کو بتایا کہ صدر حسن شیخ محمد، وزیراعظم اور دیگر وزراء محفوظ ہیں۔ اس حملے کے وقت صدر یہاں موجود نہیں تھے۔

الشباب نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس کے ارکان نے صدارتی محل میں گھس کر وہاں کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا۔

لیکن حکومتی ترجمان کے بقول ہو سکتا ہے ایک یا دو حملہ آور اندر داخل ہونے میں کامیاب بھی ہوئے ہوں لیکن وہ اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

ایک سابق سرکاری عہدیدار کے مطابق حملے کے وقت صدر انتہائی سخت حفاظتی حصار والے موغادیشو ہوائی اڈے میں افطار کی ایک تقریب میں موجود تھے اور ان کے تمام محافظ بھی ان کے ہمراہ تھے جس کی وجہ سے شدت پسندوں کو محل پر حملہ کرنے میں آسانی رہی۔

رواں سال یہ دوسرا موقع ہے کہ الشباب نے صدارتی محل پر حملہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں پر سرکاری دفاتر کے علاوہ عہدیداروں کی رہائش گاہیں بھی واقع ہیں۔

فروری میں یہاں ایک خودکش کار بم دھماکے اور مسلح جھڑپ میں کم ازکم 14 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

سخت گیر اسلامی ریاست کے قیام کے لیے شدت پسند تنظیم کی کارروائیوں میں حالیہ مہینوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

یہ تنظیم دو بار پارلیمنٹ کی عمارت پر حملہ کرنے اور سرکاری عہدیداروں کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کر چکی ہے۔