صومالیہ: الشباب کا حملہ، 22 افراد ہلاک

حکومت کی حامی فوجوں نے اس تنصیب کا گھیرا کرلیا، جس کے بعد دوبدو فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جو کئی گھنٹوں تک جاری رہا
شدت پسندوں نے منگل کے روز وسطی صومالیہ کے ایک پولیس تھانے پر دھاوا بول دیا، جس حملے میں 20 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

الشباب کےشدت پسند گروپ نے بلدیوان نامی قصبے پر ہونے والے اِس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ بلدیوان کے ایک اسپتال کے سربراہ، احمد محمد خلیف نے بتایا ہے کہ حملے میں کم از کم 17 افراد ہلاک اور دیگر زخمی ہوئے۔

عینی شاہدین کے مطابق، ایک موٹر گاڑی میں، جسے شدت پسند چلا رہے تھے، پولیس تھانے کے باہر والے دروازے کے سامنے دھماکہ ہوا۔

اس کے بعد، چار مسلح لوگوں نے عمارت میں داخل ہوکر گولیاں چلانا شروع کیں۔

حکومت کی حامی فوجوں نے اس تنصیب کا گھیرا کرلیا، جس کے بعد دوبدو فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جو کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔


اہل کاروں کا کہنا ہے کہ واقعے میں وہاں موجود تمام کے تمام حملہ آور، پولیس اہل کار اور شہری ہلاک ہوئے۔

ایک بیان میں، الشباب نے بتایا ہے کہ اُس نے صومالیہ اور جبوتی کے فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔

جبوتی اُن ملکوں میں شامل ہے جس نےصومالیہ میں افریقی یونین کی امن کار فوج کی مدد میں اپنے فوجی دستے بھیجے ہیں۔

صومالی صدر حسن شیخ محمود نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اِسے ’اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے‘ کے مترادف قرار دیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ حکومت صومالیہ میں امن اور استحکام لانے کے عزم پر قائم ہے۔

بلدیوان، ایتھیوپیا کے ساتھ ملنے والی ملکی سرحد کے قریب اور ایک اہم سڑک پر واقع ہے، جو دارالحکومت کو ملکی شمال اور جنوب سے ملاتی ہے۔

الشباب نے کہا ہے کہ گذشتہ ماہ اُسی قصبے کے ایک ہوٹل پر اُسی نے بم حملہ کیا تھا، جس میں کم از کم 15 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔