ان پاکستانی شہریوں کو 26 نومبر 2010ء میں صومالیہ کے قریب بحری قذاقوں نے ان کے جہاز پر حملہ کرکے یرغمال بنا لیا تھا
صومالی قزاقوں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے سات پاکستانی شہری تقریباً دو سال بعد وطن واپس پہنچ گئے۔ کراچی ائیر پورٹ پرگورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ ، وفاقی وزیر بابر غوری اور اہل خانہ نے ان کا شاندار استقبال کیا ۔
تمام افراد کراچی پہنچتے ہی آبدیدہ ہو گئے ۔ ائیر پورٹ پر میڈیا سے مختصر گفتگو میں ان کاکہنا تھا کہ وہ بہت خوش ہیں اوررہائی پر اللہ تعالی کے شکر گزار ہیں ۔ اُنھوں نے صدر آصف علی زرداری ،وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور گورنرووزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے ان کی رہائی کیلئے کی جانے والی کوششوں کا شکریہ ادا کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ اُنھیں قوم کی دعاؤں کی بدولت نئی زندگی ملی ہے ۔
رہائی پانے والوں کو ائیر پورٹ سے گورنر ہاؤس سندھ لایا گیا جہاں اُن کے اہلخانہ کے علاوہ شہرکے عمائدین ، سندھ اسمبلی کے اراکین اور تاجربرادری کے نمائندوں نے ان کا شاندار استقبال کیا ۔ اہلخانہ سے ملتے وقت رقت آمیز مناظر دیکھے گئے ۔
بحری جہاز ایم وی البیڈو دبئی کی بندر گاہ جبل علی سے کینیا کی بندر گاہ ممباسا کیلئے روانہ ہوا تھا، تاہم 26 نومبر 2010ء کو صومالیہ کے قریب بحری قذاقوں نے جہاز پر حملہ کرکے عملے کے23 ارکان کو یرغمال بنا لیا جن میں سات پاکستانی ، سات بنگالی ، چھ سری لنکن ، دو بھارتی اور ایک ایرانی باشندہ شامل تھا ۔
رہائی پانے والے پاکستانیوں میں کپتان جاوید سلیم ، ذوالفقار علی اورفقیر محمد کا تعلق کراچی سے ہے۔ چیف پیٹی آفیسر مجتبیٰ مانسہرہ کے رہائشی ہیں۔ جہاز کے تھرڈ آفیسر راحیل انور کا فیصل آباد، سی مین احسن نوید جہلم اور کاشف الاسلام دیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ مغویوں کی بچیوں، حِرا ،مشعل اور بختاور نے صدر زرداری سے اپیل کی تھی کہ ان کے والدکوچھڑانے میں مدد کی جائے جس پر صدر آصف علی زرداری نے بحریہ ٹاؤن کے سابق سربراہ ملک ریاض سےرابطہ کیا ، ملک ریاض نے تاوان ادا کرنے کا اعلان کیا تھا ۔
بحری قزاقوں نے جہاز کوصومالیہ کے ساحل سے ساٹھ ناٹیکل میل دور لنگرانداز کئے رکھا۔دوران قید ایک مغوی بیمار ہو کر زندگی کی بازی ہار گیا۔مغویوں کی ویڈیو ایک ماہ پہلے منظر عام پر آئی تھی۔
قزاقوں نے جہاز کی رہائی کیلئے 32 کروڑ روپے تاوان طلب کیا تھا۔ پاکستان کی جانب سے 11کروڑ روپے کا انتظام کرلیا گیا۔ تاہم، ملائشین حکام کی جانب سے تاخیر کے باعث بقایا رقم جمع نہ ہوسکی جس پر قزاقوں نے عملے کو مارنے کی دھمکیاں بھی دیں تھیں۔
گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے مطابق رہائی کیلئے کوئی تاوان نہیں اداکیا گیا ۔ صرف اخراجات کے طور پر ایک ملین ڈالر اداکئے گئے ہیں ۔ رہا ہونے والےپاکستانیوں کوپہلے نیروبی پہنچایا گیا جہاں سے براستہ دبئی وہ جمعرات کی رات کراچی پہنچے ۔ اُن کے ساتھ دبئی سے جہاز میں سی پی ایل سی کے سربراہ احمد چنائے بھی موجود تھے ۔
تمام افراد کراچی پہنچتے ہی آبدیدہ ہو گئے ۔ ائیر پورٹ پر میڈیا سے مختصر گفتگو میں ان کاکہنا تھا کہ وہ بہت خوش ہیں اوررہائی پر اللہ تعالی کے شکر گزار ہیں ۔ اُنھوں نے صدر آصف علی زرداری ،وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور گورنرووزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے ان کی رہائی کیلئے کی جانے والی کوششوں کا شکریہ ادا کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ اُنھیں قوم کی دعاؤں کی بدولت نئی زندگی ملی ہے ۔
رہائی پانے والوں کو ائیر پورٹ سے گورنر ہاؤس سندھ لایا گیا جہاں اُن کے اہلخانہ کے علاوہ شہرکے عمائدین ، سندھ اسمبلی کے اراکین اور تاجربرادری کے نمائندوں نے ان کا شاندار استقبال کیا ۔ اہلخانہ سے ملتے وقت رقت آمیز مناظر دیکھے گئے ۔
بحری جہاز ایم وی البیڈو دبئی کی بندر گاہ جبل علی سے کینیا کی بندر گاہ ممباسا کیلئے روانہ ہوا تھا، تاہم 26 نومبر 2010ء کو صومالیہ کے قریب بحری قذاقوں نے جہاز پر حملہ کرکے عملے کے23 ارکان کو یرغمال بنا لیا جن میں سات پاکستانی ، سات بنگالی ، چھ سری لنکن ، دو بھارتی اور ایک ایرانی باشندہ شامل تھا ۔
رہائی پانے والے پاکستانیوں میں کپتان جاوید سلیم ، ذوالفقار علی اورفقیر محمد کا تعلق کراچی سے ہے۔ چیف پیٹی آفیسر مجتبیٰ مانسہرہ کے رہائشی ہیں۔ جہاز کے تھرڈ آفیسر راحیل انور کا فیصل آباد، سی مین احسن نوید جہلم اور کاشف الاسلام دیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ مغویوں کی بچیوں، حِرا ،مشعل اور بختاور نے صدر زرداری سے اپیل کی تھی کہ ان کے والدکوچھڑانے میں مدد کی جائے جس پر صدر آصف علی زرداری نے بحریہ ٹاؤن کے سابق سربراہ ملک ریاض سےرابطہ کیا ، ملک ریاض نے تاوان ادا کرنے کا اعلان کیا تھا ۔
بحری قزاقوں نے جہاز کوصومالیہ کے ساحل سے ساٹھ ناٹیکل میل دور لنگرانداز کئے رکھا۔دوران قید ایک مغوی بیمار ہو کر زندگی کی بازی ہار گیا۔مغویوں کی ویڈیو ایک ماہ پہلے منظر عام پر آئی تھی۔
قزاقوں نے جہاز کی رہائی کیلئے 32 کروڑ روپے تاوان طلب کیا تھا۔ پاکستان کی جانب سے 11کروڑ روپے کا انتظام کرلیا گیا۔ تاہم، ملائشین حکام کی جانب سے تاخیر کے باعث بقایا رقم جمع نہ ہوسکی جس پر قزاقوں نے عملے کو مارنے کی دھمکیاں بھی دیں تھیں۔
گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے مطابق رہائی کیلئے کوئی تاوان نہیں اداکیا گیا ۔ صرف اخراجات کے طور پر ایک ملین ڈالر اداکئے گئے ہیں ۔ رہا ہونے والےپاکستانیوں کوپہلے نیروبی پہنچایا گیا جہاں سے براستہ دبئی وہ جمعرات کی رات کراچی پہنچے ۔ اُن کے ساتھ دبئی سے جہاز میں سی پی ایل سی کے سربراہ احمد چنائے بھی موجود تھے ۔