تھر ہر سال، دو سال بعد خشک سالی کا شکارہوجاتا ہے اور کوششوں کے باوجود اس کا کو ئی مستقل حل نہیں نکل پاتا ۔ زیر نظر رتحریر میں کراچی کے ایک ادارے ’پائیلر‘ نے کچھ تجاویز پیش کی ہیں، ملاحظہ کیجئے:
بھوک ، غربت ،بیماری اورپیاس سے پنجہ آزمائی کرتا سندھ کا علاقہ ’تھر‘ اب رفتہ رفتہ ملکی پس منظر سے اوجھل ہونے لگا ہے ۔۔۔
۔۔۔کچھ اور دن گزرے اور قحط یا خشک سالی کا زور ختم ہوا تولوگ بھول جائیں گے، حکومتوں کی ترجیحات بدل جائیں گی، میڈیا بھی کہیں اور مصروف ہوجائے گا لیکن تھری عوام کے مسائل جو میڈیا کی توجہ، حکومت کی مثبت مگر ۔۔وقتی ۔۔۔کوششوں سے کچھ کم ہوگئے ہیں ۔۔دوبارہ اسی طرح منہ پھاڑکر کھڑے ہوجائیں گے کیوں کہ ملکی و غیر ملکی امداد، زکواة یا فنڈز اس مسئلے کا عارضی حل ہیں جبکہ وقت کاتقاضہ یہ ہے کہ اس سنگین مسئلہ کا کوئی نہ کوئی مستقل حل ضرور ہونا چاہئے۔
غیر سرکاری تنظیمیں مسائل کے حل کے لئے اپنی سی کوششوں میں لگی رہتی ہیں اور اکثر کوئی نہ کوئی حل ارباب اختیار کو تجویز بھی کرتی رہتی ہیں۔ایسا ہی ایک حل پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ نے بھی پیش کیا ہے جسے حرف عام میں ”پائیلر“ بھی کہا جاتا ہے۔
پائیلر کے پروگرام منیجر ایڈوکیسی اینڈ ورکنگ شجاع الدین قریشی نے وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں اس حل کے حوالے سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے بتایا :
”تھر کی تقریباً دو لاکھ عوام کے مسائل اور ان کی غربت دور کرنے کے لئے میرے نزدیک سب سے بہترطریقہ راشن سسٹم کا دوبارہ نفاذ ہے۔پاکستان میں سن80ء کے ابتدائی عشرے تک باقاعدہ یہ نظام قائم تھا لیکن پھر جیسے ہی گلوبلائزیشن اور پرائیویٹائزیشن کا دور شروع ہوا، راشن سسٹم متروک ہوگیالیکن بھارت میں یہ آج بھی بہت کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ “
شجاع الدین کے بقول ” یہ ایک ایسا میکینیزم ہے جس کے نفاذ سے تھری عوام کو خوراک کی فراہمی کا مسئلہ ناصرف ہمیشہ کے لئے حل ہوجائے گا بلکہ ان کا بارش ، امداد اور زکوٰة پر انحصار کم سے کم تر ہوتا چلا جائے گا ۔اس نظام کا سب سے بڑا فائدہ غریب، کم آمدنی والے اور’عام آدمی ‘کو پہنچتا ہے ۔ اس کے تحت وزارت خوراک نہایت کم نرخوں پر عام لوگوں کو گندم یا آٹا، چاول اور چینی فراہم کی جاتی ہے۔ اس کی تقسیم فی گھرانے کی بنیاد پر ہوتی ہے مثلاً ایک گھر میں اگر پانچ افراد ہیں تو حکومت اس گھر انے کو ایک راشن کارڈ جاری کرے گی جس میں پانچوں افراد کے نام درج ہوں گے ۔ ہرفرد کو پورے مہینے استعمال کے لئے مخصوص وزن کے حساب سے گندم یا آٹا اور چینی و چاول رعایتی نرخوں پر فراہم کئے جائیں گے ۔“
تھر صوبہ سندھ کا نہایت پس ماندہ علاقہ ہے جہاں کے لئے زیادہ تر مویشیوں اور زراعت پر منحصر رہتے ہیں۔ بارش اچھی ہوئی تو فصل اچھی ہوتی ہے لیکن آڑتی، زمیندار اور دیگر کمیشن ایجنٹس اپنے مفادات کے تحت ان چیزوں فائدہ عام آدمی کو اٹھانے نہیں دیتے جس کے سبب نا تو تھری عوام کی سالہاسال سے جاری غربت کبھی ختم ہوئی اور نہ ہی اچھی صحت انہیں میسر آئی۔
اس علاقے کا ایک بڑا مسئلہ پانی کی عدم دستیابی بھی ہے ۔خطہ قدرتی طور پر خشک ہے ، یہاں تک کہ گرمی میں کنویں بھی خشک پڑ جاتے ہیں ، بارش اچھی ہو تو لوگ پینے کا صاف پانی جمع کرلیتے ہیں ورنہ روززنہ میلوں دور چل کر پانی نصیب ہوتا ہے ۔ دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ بڑھ رہی ہے ، تھر جو پہلے ہی پانی اور سخت موسموں کا عذاب جھیلتا ہے وہاں بارشیں نایاب ہوتی جارہی ہیں اور نتیجہ میں قحط یا خشک سالی عام ہوتی جارہی ہے۔
ان مسائل کی ایک جھلک زیر نظر تحریر سے منسلک ان تصاویر میں بھی نمایاں طورپر دیکھی جاسکتی ہے جو ”پائیلر“ کی فیلڈ ٹیم نے ضلع سانگھڑ ، تھرپارکر اورعمر کوٹ کے حالیہ دورے میں اتاری ہیں۔
شجاع الدین اور ان کا ادارہ ”پائیلر “ کم ازکم خوارک کی فراہمی کے لئے راشن سسٹم کو اس مسئلے کا بہت ہی سہل حل تصور کرتے ہیں۔یہ نظام کس طرح رائج ہوگا ، اس حوالے سے بھی وہ صوبائی حکومت کو ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”راشن سسٹم نافذ کرنے کے لئے الگ سے کوئی طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، کچھ سال پہلے عالمی بینک کے تعاون سے سندھ میں غربت کے حوالے سے ایک تحقیقی سروے ہوا تھا جس کے نتیجے میں اس بات کا تعین کیا گیا تھا کہ کن لوگوں کو غریب تسلیم کیا جائے ، کون لوگ غربت کی طے شدہ لکیر سے بھی نیچے رہتے ہیں اور کن لوگوں کو کم آمدنی والے طبقے سے جوڑ ا جائے ۔ جو جو لوگ اس سروے کے تحت مختلف کیٹیگریز میں رکھے گئے انہیں باقاعدہ ”پاورٹی اسکور کارڈ“ بھی جاری کیا گیا۔ اسی کے تحت ”بینظیر انکم سپورٹ پروگرام “ بھی کامیابی سے چلایا جارہا ہے چنانچہ ورلڈ بینک کے اسی سروے کو بنیاد بناتے ہوئے راشن سسٹم نافذ کیا جائے۔ “
”بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ہی مستحقین میں زکوٰة تقسیم ہوتی ہے، مستحقین کوالیکٹرونک کارڈ جاری کئے گئے ہیں جو اے ٹی ایم کے ذریعے ہر تین ماہ بعد رقم نکلواتے ہیں۔ نواز حکومت کا ایک قابل تحسین اقدام یہ بھی ہے کہ اس نے اقتدار میں آکر بھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو جوان کی مخالف سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے شروع کیا تھا ،اسے نہ تو ختم کیا اور نہ ہی اس کا نام تبدیل کیا بلکہ امدادی رقم میں اضافہ بھی کردیا ہے ۔ پہلے ایک ہزار روپے دیئے جاتے تھے جو اب بڑھا کر 1200روپے کردیئے گئے ہیں۔ہماری حکومت کو یہ تجویز ہے کہ راشنگ سسٹم کو اسی نظام سے مربوط کردیا جائے تاکہ کم وقت، کم سرمائے اور محدود وسائل میں رہتے ہوئے تھر کے مسئلے کا فوری اور مستقل حل نکل آئے۔“
۔۔۔کچھ اور دن گزرے اور قحط یا خشک سالی کا زور ختم ہوا تولوگ بھول جائیں گے، حکومتوں کی ترجیحات بدل جائیں گی، میڈیا بھی کہیں اور مصروف ہوجائے گا لیکن تھری عوام کے مسائل جو میڈیا کی توجہ، حکومت کی مثبت مگر ۔۔وقتی ۔۔۔کوششوں سے کچھ کم ہوگئے ہیں ۔۔دوبارہ اسی طرح منہ پھاڑکر کھڑے ہوجائیں گے کیوں کہ ملکی و غیر ملکی امداد، زکواة یا فنڈز اس مسئلے کا عارضی حل ہیں جبکہ وقت کاتقاضہ یہ ہے کہ اس سنگین مسئلہ کا کوئی نہ کوئی مستقل حل ضرور ہونا چاہئے۔
غیر سرکاری تنظیمیں مسائل کے حل کے لئے اپنی سی کوششوں میں لگی رہتی ہیں اور اکثر کوئی نہ کوئی حل ارباب اختیار کو تجویز بھی کرتی رہتی ہیں۔ایسا ہی ایک حل پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ نے بھی پیش کیا ہے جسے حرف عام میں ”پائیلر“ بھی کہا جاتا ہے۔
پائیلر کے پروگرام منیجر ایڈوکیسی اینڈ ورکنگ شجاع الدین قریشی نے وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں اس حل کے حوالے سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے بتایا :
شجاع الدین کے بقول ” یہ ایک ایسا میکینیزم ہے جس کے نفاذ سے تھری عوام کو خوراک کی فراہمی کا مسئلہ ناصرف ہمیشہ کے لئے حل ہوجائے گا بلکہ ان کا بارش ، امداد اور زکوٰة پر انحصار کم سے کم تر ہوتا چلا جائے گا ۔اس نظام کا سب سے بڑا فائدہ غریب، کم آمدنی والے اور’عام آدمی ‘کو پہنچتا ہے ۔ اس کے تحت وزارت خوراک نہایت کم نرخوں پر عام لوگوں کو گندم یا آٹا، چاول اور چینی فراہم کی جاتی ہے۔ اس کی تقسیم فی گھرانے کی بنیاد پر ہوتی ہے مثلاً ایک گھر میں اگر پانچ افراد ہیں تو حکومت اس گھر انے کو ایک راشن کارڈ جاری کرے گی جس میں پانچوں افراد کے نام درج ہوں گے ۔ ہرفرد کو پورے مہینے استعمال کے لئے مخصوص وزن کے حساب سے گندم یا آٹا اور چینی و چاول رعایتی نرخوں پر فراہم کئے جائیں گے ۔“
تھر صوبہ سندھ کا نہایت پس ماندہ علاقہ ہے جہاں کے لئے زیادہ تر مویشیوں اور زراعت پر منحصر رہتے ہیں۔ بارش اچھی ہوئی تو فصل اچھی ہوتی ہے لیکن آڑتی، زمیندار اور دیگر کمیشن ایجنٹس اپنے مفادات کے تحت ان چیزوں فائدہ عام آدمی کو اٹھانے نہیں دیتے جس کے سبب نا تو تھری عوام کی سالہاسال سے جاری غربت کبھی ختم ہوئی اور نہ ہی اچھی صحت انہیں میسر آئی۔
اس علاقے کا ایک بڑا مسئلہ پانی کی عدم دستیابی بھی ہے ۔خطہ قدرتی طور پر خشک ہے ، یہاں تک کہ گرمی میں کنویں بھی خشک پڑ جاتے ہیں ، بارش اچھی ہو تو لوگ پینے کا صاف پانی جمع کرلیتے ہیں ورنہ روززنہ میلوں دور چل کر پانی نصیب ہوتا ہے ۔ دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ بڑھ رہی ہے ، تھر جو پہلے ہی پانی اور سخت موسموں کا عذاب جھیلتا ہے وہاں بارشیں نایاب ہوتی جارہی ہیں اور نتیجہ میں قحط یا خشک سالی عام ہوتی جارہی ہے۔
شجاع الدین اور ان کا ادارہ ”پائیلر “ کم ازکم خوارک کی فراہمی کے لئے راشن سسٹم کو اس مسئلے کا بہت ہی سہل حل تصور کرتے ہیں۔یہ نظام کس طرح رائج ہوگا ، اس حوالے سے بھی وہ صوبائی حکومت کو ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”راشن سسٹم نافذ کرنے کے لئے الگ سے کوئی طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، کچھ سال پہلے عالمی بینک کے تعاون سے سندھ میں غربت کے حوالے سے ایک تحقیقی سروے ہوا تھا جس کے نتیجے میں اس بات کا تعین کیا گیا تھا کہ کن لوگوں کو غریب تسلیم کیا جائے ، کون لوگ غربت کی طے شدہ لکیر سے بھی نیچے رہتے ہیں اور کن لوگوں کو کم آمدنی والے طبقے سے جوڑ ا جائے ۔ جو جو لوگ اس سروے کے تحت مختلف کیٹیگریز میں رکھے گئے انہیں باقاعدہ ”پاورٹی اسکور کارڈ“ بھی جاری کیا گیا۔ اسی کے تحت ”بینظیر انکم سپورٹ پروگرام “ بھی کامیابی سے چلایا جارہا ہے چنانچہ ورلڈ بینک کے اسی سروے کو بنیاد بناتے ہوئے راشن سسٹم نافذ کیا جائے۔ “
”بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ہی مستحقین میں زکوٰة تقسیم ہوتی ہے، مستحقین کوالیکٹرونک کارڈ جاری کئے گئے ہیں جو اے ٹی ایم کے ذریعے ہر تین ماہ بعد رقم نکلواتے ہیں۔ نواز حکومت کا ایک قابل تحسین اقدام یہ بھی ہے کہ اس نے اقتدار میں آکر بھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو جوان کی مخالف سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے شروع کیا تھا ،اسے نہ تو ختم کیا اور نہ ہی اس کا نام تبدیل کیا بلکہ امدادی رقم میں اضافہ بھی کردیا ہے ۔ پہلے ایک ہزار روپے دیئے جاتے تھے جو اب بڑھا کر 1200روپے کردیئے گئے ہیں۔ہماری حکومت کو یہ تجویز ہے کہ راشنگ سسٹم کو اسی نظام سے مربوط کردیا جائے تاکہ کم وقت، کم سرمائے اور محدود وسائل میں رہتے ہوئے تھر کے مسئلے کا فوری اور مستقل حل نکل آئے۔“