حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری لڑائی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے متعلق متعدد ویڈیوز ، تصاویر اور خبریں سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جن میں بعض فیک نیوز بھی ہیں۔ ایسی ہی ایک فیک نیوز کا شکار امریکہ کے صدر جو بائیڈن بھی ہوئے ہیں جس کی وائٹ ہاؤس نے وضاحت کی ہے۔
صدر جو بائیڈن نے بدھ کو یہودی رہنماؤں سے خطاب میں کہا تھا کہ انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ دہشت گردوں کے ہاتھوں بچوں کی سر قلم لاشوں کی تصاویر دیکھیں گے۔
صدر بائیڈن کا بیان ان میڈیا رپورٹس کے بعد سامنے آیا تھا جن میں رپورٹ کیا گیا تھا کہ حماس کے جنگجوؤں نےشہریوں کا قتلِ عام کیا اور بچوں کے سر دھڑ سے جدا کیے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے صدر بائیڈن کی بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صدر بائیڈن کا بیان اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے ترجمان کی فراہم کی گئی اطلاعات اور میڈیا میں سامنے آنے والی رپورٹس کی بنیاد پر مبنی تھا۔
اسرائیلی فورسز کے ترجمان نے ترکی کے خبر رساں ادارے ’انادولو‘ سے گفتگو میں کہا تھا کہ اسرائیل کی فوج کے پاس ایسی معلومات نہیں ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حماس کے دہشت گردوں نے بچوں کے سر قلم کیے ہیں۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے میڈیا میں سامنے آنے والی رپورٹس دیکھی ہیں۔ لیکن ان کے پاس اس حوالے سے معلومات موجود نہیں۔
واضح رہے کہ دو روز قبل اسرائیلی فوج نے میڈیا کو اس علاقے کا دورہ کرایا تھا جہاں حماس کے جنگجوؤں نے شہریوں کو ہلاک کیا تھا۔ اس دورے کے بعد بعض صحافیوں نے رپورٹ کیا کہ یہاں 40 بچوں کو قتل کیا گیا ہے۔ لیکن بعد میں سوشل میڈیا پر وضاحت کی گئی کہ انہیں یہ معلومات اسرائیلی فوج نے فراہم کی تھیں۔
ان میں سے بعض صحافیوں کی وہ ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں جن میں وہ بچوں کی اموات کا ذکر کر رہے ہیں۔
خواتین سے زیادتی
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کا بدھ کوقوم سے خطاب میں کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے بربریت کی۔ اس دوران لڑکے لڑکیوں کے سروں میں گولیاں ماری گئیں، لوگوں کو زندہ جلایا گیا، خواتین کا ریپ کیا گیا اور اسرائیلی فوجیوں کے سر قلم کیے گئے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق اسرائیل کے وزیرِ اعظم نے ایسے شواہد پیش نہیں کیے جن کی آزاد اور غیر جانب دار ذرائع سے تصدیق ہو سکے۔
خیال رہے کہ امریکہ کے اخبار ’لاس اینجلس ٹائمز‘ میں ایک کالم نگار نے اپنی تحریر میں بھی لکھا تھا کہ حماس کے حملے میں جنگجوؤں نے خواتین سے زیادتی کی ہے۔ لیکن’لاس اینجلس ٹائمز‘ نے وضاحت کی ہے کہ ریپ سے متعلق خبروں کی صداقت کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
اسرائیلی بچوں کو جانوروں کے پنجرے میں رکھنا
برطانیہ کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ’برٹش فرسٹ‘ کی رہنما ایشلیا سائمن نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ متعدد بچے ایک پنجرے میں بند ہیں۔
انہوں نے اس ویڈیو کے ساتھ لکھی گئی تحریر میں دعویٰ کیا ہے کہ ان اسرائیلی بچوں کو حماس نے اغوا کر کے پنجرے میں بند کر دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بربریت ہے۔ لیکن وحشیوں سے اور کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔
واضح رہے کہ اس ویڈیو کو ان کے اکاؤنٹ پر 22 لاکھ بار دیکھا جا چکا ہےاور بڑی تعداد میں اسے شیئر کیا جا رہا ہے۔
لیکن اسرائیل کے فیکٹ چیک کرنے والے اکاؤنٹس نے واضح کیا ہے کہ یہ ویڈیو اس واقعے کی نہیں ہے۔ بلکہ حماس کے حملے سے کئی روز قبل یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر موجود تھی۔
یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ یہ ویڈیو کب بنائی گئی اور اسے بنانے کا مقصد کیا تھا۔
اسرائیلی بچوں کا اغوا
اسی طرح ایک اسرائیلی نژاد امریکی وکیل مرک زیل نے ٹک ٹاک کی ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں ایک نوجوان گلابی لباس میں ملبوس ایک بچی سے ہنسی مذاق میں مصروف ہے۔
مرک زیل نے ویڈیو کے ساتھ تحریر میں لکھا ہے کہ حماس کے دہشت گرد ایک یہودی بچی کو اغوا کرکے غزہ لے گئے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا ہے کہ یہ ہیں ہمارے دشمن۔
مرک زیل کی اس ویڈیو پر ٹوئٹر کی جانب سے نوٹ لگایا گیا ہے کہ یہ ویڈیو ٹک ٹاک پر اگست میں موجود تھی۔
واضح رہے کہ اسرائیل پر حماس کے حملے سے دو ماہ قبل کی اس ویڈیو کو بھی مرک زیل کے اکاؤنٹ پر لگ بھگ 11 لاکھ بار دیکھا جا چکا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق حماس کے حملے کے بعد سوشل میڈیا پر جعلی معلومات بہت تیزی سے پھیلائی جا رہی ہیں۔ اس میں فریقین کے حامی ایسا مواد بھی شیئر کر رہے ہیں جو حقیقت پر مبنی نہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (سابقہ ٹوئٹر) پر جعلی اور جھوٹی خبروں کی ترویج کے حوالے سے یورپی ممالک پہلے ہی خدشات کا اظہار کر چکے ہیں جب کہ اس حوالے سے اس کے مالک ایلون مسک سے اقدامات کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
ایلون مسک کے ٹوئٹر خریدنے کے بعد اس میں کئی قسم کی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن میں سب سے اہم ڈیٹا تک رسائی ہے۔ ایسے میں فیکٹ چیک کرنے والے ماہرین کو ہیش ٹیگز کی مدد سے شیئر ہونے والے مواد کا سراغ لگانے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔
اسرائیلی جنرل کی گرفتاری
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق حماس کے حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ایک تصویر شیئر کی جا رہی تھی کہ اسرائیل کی فوج کے ایک اعلیٰ جنرل نمرود الونی کو جنگجو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے ہیں۔
تاہم یہ دعویٰ حقیقت پر مبنی نہیں تھا کیوں کہ ہفتے کو حماس کے حملے کے بعد اتوار کو اسرائیل کی فوج کے اعلیٰ افسران کا ایک اجلاس ہوا تھا جس میں نمرود الونی بھی موجود تھے۔
ان کی تصویر اب بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہے۔
امریکہ کی اسرائیل کے لیے 8 ارب ڈالر کی فوجی امداد
غزہ اور مغربی کنارے کی خبریں رپورٹ کرنے والے میڈیا کے ادارے ’القدس نیوز نیٹ ورک‘ نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لگائی تھی کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کے لیے آٹھ ارب ڈالر کی فوجی امداد کی منظوری دی ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق جس اعلامیے کی بنیاد پر یہ خبر شائع کی گئی تھی وہ جعل سازی سے بنایا گیا تھا۔
امریکہ کی حکومت نے یوکرین کی حکومت کے لیے 40 کروڑ ڈالر کی امداد کی منظور دی تھی جس کے سرکاری اعلامیے میں رد و بدل کرکے اسے اسرائیل کے لیے امریکی فنڈ کے اجرا کا شاخسانہ بنایا گیا تھا۔
جنگجوؤں کی پیراشوٹ سے آمد
اسی طرح کئی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے ایک ویڈیو شیئر کی جا رہی ہے جس میں ایک اسپورٹس کے ایونٹ میں پیرا شوٹ کی مدد سے لوگ اتر رہے ہیں۔
اس ویڈیو کے ساتھ لکھا جا رہا ہے کہ حماس کے عسکریت پسند عام شہریوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔
’اے پی‘ کے مطابق یہ ویڈیو مصر کی ہے جہاں اس کے دارالحکومت قاہرہ میں ایک اسپورٹس فیسٹیول میں پیرا شوٹر اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے۔
واضح رہے کہ یورپی حکام منگل کو واضح کر چکے ہیں کہ زیادہ تر جعلی معلومات سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کے ذریعے سامنے آ رہی ہیں۔
حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ رواں برس یورپ کے بعض ممالک میں انتخابات بھی ہونے والے ہیں ایسے میں گوگل، ٹک ٹاک، مائیکرو سافٹ اور میٹا کو بھی مزید اقدامات کی ضرورت ہے جس سے فیک نیوز کو روکا جا سکے۔
اس تحریر میں خبر رساں اداروں' ایسوسی ایٹڈ پریس' اور 'رائٹرز' سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔