سوشل میڈیا نے عوام کو آواز اٹھانے کی جرات دی ہے اس لیے سیاسی رہنماؤں کی غیر مشروط حمایت کرنے والے بھی ان کے بعض فیصلوں سے اختلاف کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایسا ایک فیصلہ فوج کے سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے آرمی ایکٹ میں ترمیم سے متعلق بل پر سیاسی جماعتوں کی حمایت کا ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحافیوں، تجزیہ کاروں اور سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد بڑی سیاسی جماعتوں کے فیصلے سے خفا ہے۔
عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے تبصرہ کیا، ان لوگوں کے ہاتھوں جمہوریت کی موت، جن کے بارے میں ہم سمجھتے تھے کہ وہ ہماری قسمت بدل سکتے ہیں۔ کھڑے ہوں اور اپنی نمائندگی خود کریں۔ پارلیمان میں ہر شخص صرف اپنے مفاد کا اسیر ہے۔
سیاسی تجزیہ کار مرتضیٰ سولنگی نے لکھا، آج میرے ملک کے سیاست دانوں نے بیس کروڑ پاکستانیوں کی جمہوری امیدوں کا قتل کیا ہے۔ اب شاہراہ دستور پر واقع عمارت کی کوئی وقعت اور عزت نہیں رہی۔
Our politicians have killed the democratic aspirations of 200 million Pakistanis today. The building on the constitution avenue has lost all its glory, dignity and respect.
— Murtaza Solangi (@murtazasolangi) January 2, 2020
اینکر پرسن ضرار کھوڑو نے لکھا، ووٹ کو ایکسٹینشن دو۔ تجزیہ کار مطیع اللہ جان نے کہا، ووٹ کو عزت دو سے شروع ہونے والا سفر چیف کو ایکسٹینشن دو پر ختم ہو گیا۔ پہنچی وہی پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
اینکر پرسن سلیم صافی نے ٹوئٹ کیا، اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائدین مریم نواز کی قیادت میں چودھری نثار کے گھر جا کر ان سے معافی مانگیں۔ ان کی بات مانی جاتی تو نہ حکومت جاتی، نہ جیلیں دیکھنی پڑتیں اور نہ بعد از خرابی بسیار تابع داری کی وہ سیاست کرنی پڑتی جو اب ن لیگ کرنے لگی ہے۔
اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائدین مریم نواز صاحبہ کی قیادت میں چودھری نثار علی خان کے گھر جاکر ان سے معافی مانگیں۔ ان کی بات مانی جاتی تو نہ حکومت جاتی ، جیلیں دیکھنی پڑتیں اور نہ بعدازخرابی بیسیار تابعداری کی وہ سیاست کرنی پڑتی جو اب نون لیگ کرنے لگی ہے۔
— Saleem Safi (@SaleemKhanSafi) January 2, 2020
بلاگر اور استاد سلمان حیدر نے فیس بک پر تبصرہ کیا، یہ پلیٹ لیٹس گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا۔
سینئر صحافی انصار عباسی نے ٹی وی ٹاک شو میں خواجہ آصف کے الفاظ دوہرائے، کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔ لیکن سینئر رپورٹر طارق بٹ نے اسے پلٹ کر اس طرح ٹوئٹ کیا، کوئی شرم نہیں ہوتی، کوئی حیا نہیں ہوتی۔
کوئی شرم نہیں ہوتی کوئی حیا نہیں ہوتی
— Tariq Butt (@tariqbutt_) January 2, 2020
صحافی اور استاد رضا احمد رومی نے لکھا کہ پنجاب کی پارٹی اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ دیر جھگڑا نہیں کر سکتی۔ رپورٹر عمر چیمہ نے شعر ٹوئٹ کیا، شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر، میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا۔
دانشور فرخ سہیل گوئندی نے فیس بک پر لکھا، وہ بوٹ لکھتے رہے۔ ہم ووٹ سنتے رہے۔
پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکن اورنگزیب ظفر خان نے فیس بک پر تحریر کیا، پیپلز پارٹی کے کارکن آرمی ایکٹ بل کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔ نامنظور، نامنظور، نامنظور۔
ایک نوجوان محمد فیضان خان نے ٹوئٹ کیا، کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ اچھے وقت میں گریبان اور مشکل وقت میں پاؤں پکڑ لیتے ہیں۔ اینکر پرسن رؤف کلاسرا نے بتایا کہ یہ پیر صاحب پگارا کا جملہ ہے۔
شھباز شریف اور نواز شریف نے آرمی ایکٹ کی ترامیم پر PTI کا تھوکا چاٹ کر آج ووٹ اور ووٹر کو تاریخی عزت دی ہے۔
— Syed Talat Hussain (@TalatHussain12) January 2, 2020
لیکن سب سے سخت تبصرہ اینکرپرسن طلعت حسین نے کیا۔ انھوں نے ٹوئٹ کیا، شہباز شریف اور نواز شریف نے آرمی ایکٹ کی ترامیم پر پی ٹی آئی کا تھوکا چاٹ کر آج ووٹ اور ووٹر کو تاریخی عزت دی ہے۔