سام سنگ کے ارب پتی نائب صدر کو رشوت ستانی پر جیل کی سزا

سام سنگ کے نائب صدر لی جائی یانگ،

جنوبی کوریا کی ایک عدالت نے پیر کے روز سام سنگ کے نائب صدر ارب پتی لی جائی یانگ کو سن 2016 کے کرپشن سکینڈل میں ان کے ملوث ہونے کی بنا پر انہیں ڈھائی سال کی قید کی سزا سنائی ہے۔

جنوبی کوریا میں 2016 میں کرپشن سکینڈل کی وجہ سے بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے تھے اور اس کے سبب اس وقت کے ملک کی صدر کو استعفی دینا پڑا تھا۔

سئیول کی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لی جائی یانگ کو اس وقت کی صدر پارک جین ہائی اور ان کے ساتھی کو 2015 میں سام سنگ سے منسلک دو کمپنیوں کے ضم ہونے کی ڈیل کے لیے حکومتی مدد حاصل کرنے کے سلسلے میں رشوت دینے کا مرتکب پایا ہے۔

اس ڈیل کی وجہ سے لی کو ملک کے سب سے بڑے کاروباری گروپ، سام سنگ پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں مدد ملی۔

لی کے وکلا کا موقف ہے کہ وہ صدر کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال کا نشانہ بنے اور یہ کہ 2015 کی ڈیل معمول کا کاروبار تھی۔

فیصلے کے بعد لی کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ عدالت میں حاضر ہونے کے وقت انہوں نے رپورٹرز کے سوالات کا جواب دینے سے گریز کیا۔

انجائے لی نے، جو لی جائے یانگ کے قانونی دفاعی ٹیم کا حصہ ہیں، عدالتی فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’اس کیس کی بنیاد اس بات پر تھی کہ ایک سابقہ صدر نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایک نجی کمپنی کی آزادی اور مالکانہ حقوق میں مداخلت کی۔‘‘

انہوں نے اپنے بیان میں یہ نہیں بتایا کہ ان کی قانونی ٹیم کی طرف سے فیصلے کے خلاف اپیل کی جائے گی یا نہیں۔

سام سنگ نے اس فیصلے پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

لی جائی یانگ سام سنگ گروپ میں سام سنگ الیکڑرانکس کے نائب چیئرمین ہیں۔ یہ دنیا بھر میں کمپیوٹر چپس اور سمارٹ فون بنانے والی وبڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔
پچھلے برس ستمبر میں پراسیکیوٹرز نے لی پر 2015 کی ڈیل کے لیے سٹاک پرائس میں جوڑ توڑ، بریچ آف ٹرسٹ اور آڈٹ کی خلاف ورزیوں کے الزام میں فرد جرم عائد کی تھی۔

سام سنگ کے نائب صدر کو جیل کی سزا سے کمپنی کے مستقبل پر کیا اثر پڑے گا، یہ ابھی تک واضح نہیں ہوا ہے۔ سام سنگ کو لی کے 2017 اور 2018 میں جیل میں وقت گزارنے کے وقت بھی کاروباری طور پر مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔

جنوبی کوریا کی کمپنی کے حکام کو جیل کے پیچھے سے بھی بندوبست کے ذریعے فیصلے لینے میں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

باون برس کے لی کو 2017 میں عدالت نے اس وقت کے سابقہ صدر پارک اور ان کی دیرینہ دوست چوئی سان سل کو 70 لاکھ ڈالر کے برابر رقم رشوت کے طور پر دینے پر پانچ برس کی سزا دی گئی تھی۔ انہیں فروری 2018 میں رہا کر دیا گیا تھا، جب ان کی سزا کو سئیول کی ہائی کورٹ نے کم کر کے ڈھائی برس کر دیا تھا۔

پچھلے ہفتے جنوبی کوریا کی سپریم کورٹ نے سابقہ صدر پارک کی 20 برس کی قید کی سزا کی توثیق کی تھی۔ انہیں ان کی دوست چوئی سان سل کے ساتھ مل کر سام سنگ سمیت ملک کے بڑے کاروباری گروپوں سے لاکھوں ڈالر کے برابر رقوم بھتے اور رشوت کے طور پر لینے پر سزا دی گئی۔

وہ 2013 سے 2016 تک جنوبی کوریا کی صدر رہیں۔