آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پنجاب کی سیاسی صورتِ حال دلچسپ ہو گئی ہے۔ فیصلے کے بعد یہ سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں کہ تحریکِ انصاف کے 25 منحرف اراکین کے ووٹوں کے ذریعے بننے والی حمزہ شہباز کی حکومت برقرار رہ سکے گی یا نہیں؟
خیال رہے کہ منگل کو سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے اراکین کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا۔
بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ابہام ہے، لہذٰا اس کا اطلاق حمزہ شہباز شریف کے بطور وزیرِ اعلٰی انتخاب پر نہیں ہو گا۔ البتہ بعض قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ حمزہ شہباز کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعد پنجاب میں ایک بار پھر نمبر گیم کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور آزاد ارکانِ اسمبلی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔
صورتِ حال کے پیشِ نظر وزیرِ اعلٰی پنجاب حمزہ شہباز شریف نے اراکینِ اسمبلی سے ملاقاتوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔
منحرف ارکان کے ووٹ شمار نہ ہونے کی صورت میں کیا ہو گا؟
بعض ماہرین کے مطابق پنجاب میں اب آزاد ارکانِ پنجاب اسمبلی اہمیت اختیار کر گئے ہیں اور یہی چار ارکان اسمبلی وزیرِ اعلٰی کے دوبارہ انتخاب کی صورت میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔
پنجاب میں پارٹی پوزیشن کی بات کی جائے تو موجودہ پنجاب اسمبلی میں وزارتِ اعلٰی کے لیے درکار 186 ارکانِ پنجاب اسمبلی کی حمایت کسی بھی جماعت کو حاصل نہیں ہے۔
وزیرِ اعلٰی پنجاب کے انتخاب میں اگر ووٹنگ کے دوران کوئی بھی اُمیدوار 186 ارکان کی حمایت حاصل نہیں کر پاتا تو رولز کے مطابق 'سیکنڈ رن' یعنی دوبارہ ووٹنگ ہو گی جس میں ہال میں موجود ارکانِ اسمبلی میں اکثریتی ووٹ لینے والا وزیرِ اعلٰی کا انتخاب جیت جائے گا۔
پنجاب اسمبلی قواعد کے مطابق اگر قائدِ ایوان کے انتخاب میں دونوں امیدوار برابر ووٹ حاصل کر لیتے ہیں تو اِیسی صورتِ حال میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا ووٹ حتمی تصور ہو گا۔
گزشتہ ماہ وزیرِ اعلٰی کے انتخاب کے دوران حمزہ شہباز نے مجموعی طور پر 197 ووٹ حاصل کیے تھے۔ حمزہ شہباز کو مسلم لیگ (ن) کے 160 ارکان کے ووٹ ملے تھے۔ تحریکِ انصاف کے 25 منحرف ارکان ، پیپلزپارٹی کے سات، راہ حق پارٹی کے ایک جب کہ چار آزاد ارکان نے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے پانچ ارکان اور چوہدری نثار نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ لہذٰا نئے انتخاب اور منحرف اراکین کے ڈی نوٹیفائی ہونے کی صورت میں وزارتِ اعلٰی کے دوبارہ انتخاب کی صورت میں صورتِ حال دلچسپ ہو جائے گی۔
ایسی صورت میں مسلم لیگ (ن) اور اتحادیوں کے ووٹس کی تعداد 172 رہ جائے گی۔
پنجاب اسمبلی میں تحریکِ انصاف کے ارکان کی تعداد 158 جب کہ مسلم لیگ (ق) کے 10 ارکان ہیں، تحریکِ انصاف کے 25 منحرف ارکان کے نااہل ہونے کی صورت میں خصوصی نشستوں پر تحریکِ انصاف کے پانچ نئے ارکان ایم پی اے بن جائیں گے۔ لہذٰا پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی کل تعداد 173 ہو جائے گی۔ اس طرح موجودہ صورتِ حال برقرار رہنے پر تحریکِ انصاف کو نئے انتخاب میں ایک ووٹ کی برتری حاصل ہو گی۔
ایسی صورت میں اگر چار آزاد ارکان مسلم لیگ (ن) کا ساتھ چھوڑتے ہیں تو تحریکِ انصاف کی پوزیشن اور مضبوط ہو جائے گی۔
صوبے میں گورنر نہیں ہو گا تو اعتماد کا ووٹ کون لے گا؟
مبصرین سمجھتے ہیں کہ صوبہ میں گورنر نہ ہونے کے باعث پاکستان مسلم لیگ (ن) کو وقتی طور پر سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے۔ صوبے میں گورنر نہ ہونے کے باعث حمزہ شہباز کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ایڈوائس نہیں کی جا سکتی۔
خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے سابق گورنر عمر سرفراز چیمہ کو اُن کے عہدے سے سبکدوش کر دیا تھا، تاہم اسپیکر پنجاب اسمبلی نے قائم مقام گورنر کا چارج نہیں سنبھالا جس کے باعث صوبے میں آئینی بحران برقرار ہے۔
'بظاہر یہ معاملہ بھی عدالت میں جاتا دکھائی دے رہا ہے'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ اگر عدالتی فیصلے کا اثر حمزہ شہباز کے الیکشن پر بھی ہوتا ہے تو پھر لامحالہ وزیرِ اعلٰی کا انتخاب دوبارہ ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعلٰی کے حلف کا معاملہ پہلے ہی لاہور ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ معاملہ بھی عدالت میں ہی جائے گا۔ یہ سوال بھی دوبارہ اُٹھے گا کہ وزیرِ اعلٰی کا پورا انتخاب ہی نئے سرے سے ہو گا یا دو اُمیدواروں یعنی چوہدری پرویز الہٰی اور حمزہ شہباز کے درمیان مقابلہ ہو گا۔
مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ اگر چوہدری پرویز الہٰی قائم مقام گورنر بن جاتے ہیں تو پھر صورتِ حال مختلف ہو سکتی ہے اور وہ وزیرِ اعلٰی کو اعتما دکا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔ تاہم اگر وہ قائم مقام گورنر بن جاتے ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اُنہوں نے عمر سرفراز چیمہ کو نکالنے کا وفاقی حکومتی کا فیصلہ تسلیم کر لیا ہے۔
اُن کے بقول چوہدری پرویز الہٰی کے لیے یہ بھی مشکل ہو گی کہ اگر وہ قائم مقام گورنر بنتے ہیں تو پھر ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری قائم مقام اسپیکر بن جائیں گے جن کے ساتھ چوہدری پرویز الہٰی کے پہلے سے ہی اختلافات ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ تحریکِ انصاف سپریم کورٹ کے فیصلے کی وضاحت کے لیے دوبارہ عدالت سے رُجوع کر سکتی ہے۔ تاکہ 25 منحرف ارکان سے متعلق حتمی فیصلہ ہو سکے۔
اُن کے بقول عدالت نے آئین کی تشریح کی ہے، جس سے یہ لگتا ہے کہ تحریکِ انصاف اس تشریح کی مزید وضاحت کے لیے دوبارہ عدالت کا رُخ کرے گی۔
ذرائع پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مطابق قانونی ٹیم کی مشارت کے بعد وزیراعلٰی پنجاب حمزہ شہباز نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ وزیراعلٰی کے عہدے سے مستعفی نہیں ہوں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مجیب الرحمن شامی کے مطابق یوں معلوم ہوتا ہے کہ حمزہ شہباز مستعفی ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے کیوں کہ بظاہر اُنہیں اعتماد ہے کہ وہ اپنی حکومت بچا لیں گے۔
عدالتِ عظمٰی کی تریسٹھ اے کی تشریح بارے میں اُنہوں نے کہا کہ ایک ابہام پایا جا رہا تھا کہ یہ رائے ہے۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ یہ عدالت کا حکم ہے رائے نہیں ہے کیونکہ عدالتِ عظمٰی نے صدارتی ریفرنس اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست کو اکٹھے سنا ہے اور دونوں کو ملا کر ایک فیصلہ جاری کیا ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار نسیم زہرہ کے مطابق عمران خان کی حکومت کو منحرف ارکان کے ووٹوں سے نہیں ہٹایا گیا۔ لیکن پنجاب کی سیاسی صورتِ حال پر عدالتی تشریح اثر انداز ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی پی ٹی آئی کے منحرف ارکانِ پنجاب اسمبلی کے خلاف ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے جو کسی بھی وقت سنایا جا سکتا ہے۔