شکارپور میں 30جنوری کو ہونے والے سانحے کے خلاف کراچی کی نمائش چورنگی پر احتجاجی دھرنا بدھ کو بھی جاری رہا۔ دھرنے کے شرکا شکار پور سے مختلف گاڑیوں میں سوار ہوکر اور احتجاجی لانگ مارچ کی شکل میں منگل کو رات گئے کراچی پہنچے تھے۔
بدھ کو دھرنے کے شرکاء نے ریڈ زون میں واقع وزیراعلیٰ ہاوٴس پر پہنچ کر دھرنا دینا تھا، جبکہ اس کا گھیراوٴ کرنے کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم، حکومت نے ایک روز پہلے ہی ریڈ زون میں دفعہ 144 نافذ کردی تھی جس کے تحت پانچ یا پانچ سے زائد افراد جمع نہیں ہوسکتے۔
لانگ مارچ کا اعلان ’شکارپور شہدا کمیٹی‘ اور دینی تنظیم مجلس وحدت المسلمین کی طرف سے کیا گیا، جبکہ دھرنا بھی انہی تنظیموں کی طرف سے دیا جا رہا ہے۔ دھرنے میں شکارپور واقعے میں انتقال کرجانے والے افراد کے لواحقین کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔
مجلس وحدت المسلمین کے رہنما علامہ امین شہیدی، علامہ راجا ناصر عباس، علامہ مقصود ڈومکی اور دیگر کا مطالبہ ہے کہ اکیسویں آئینی ترمیم پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کیا جائے۔
بدھ کو دن بھر تنظیم کے مختلف رہنماوٴں نے وقفے وقفے سے شرکاء اور میڈیا سے خطاب کیا اور اپنے مطالبات دوہرائے، جبکہ شرکاء کی جانب سے حکومت کے خلاف دن بھر نعرے بھی لگائے جاتے رہے۔
مقررین کا کہنا ہے کہ لواحقین کو جب تک انصاف نہیں ملے گا دھرنا ختم نہیں ہوگا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت عوام کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے۔ دہشت گردی عروج پر ہے جبکہ ان کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی جارہی۔
مقررین کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت سانحہ شکارپور میں ملوث دہشت گردوں کو گرفتار کرے اور قرار واقعی سزا دے۔ انہوں نے دہشت گردوں کی گرفتاری کیلئے کالعدم جماعتوں کے خلاف فوجی آپریشن کا بھی مطالبہ کیا۔
رات گئے حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ ایک مذاکراتی ٹیم نے شہد اکمیٹی سے رابطہ کیا، لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔
شہدا کمیٹی کے رہنماوٴں کے مطابق، لانگ مارچ اور دھرنے میں تقریباً1200افراد شریک ہیں۔ مجلس وحدت المسلمین کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل امین شہیدی کا کہنا ہے کہ شرکاء وزیراعلیٰ ہاوٴس کے سامنے دھرنا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، احتجاج ہمارا حق ہے، لہذا اس کی اجازت دی جائے۔
امین شہیدی نے بتایا کہ جس وقت لانگ مارچ بھٹ شاہ سے گزر رہا تھا اس وقت سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا اور سنیئر سیاستدان نثار احمد کھہڑو نے رات تقریباً تین بجے ان سے مذاکرات کے لئے رابطہ کیا تھا۔ لیکن، بقول امین شہیدی، ’ہم نے انکار کر دیا۔ ہم رات کے اندھیرے کے بجائے دن کے اجالے میں مذاکرات کے حامی ہیں‘۔
Your browser doesn’t support HTML5