بھارت کی وزیرِ خزانہ نرملا سیتا رمن نے بھارت میں اقلیتوں سے متعلق امریکہ کے سابق صدر براک اوباما کے بیان پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے وزیرِ اعظم نریندرمودی کے دورۂ امریکہ کے موقع پر سابق صدر کے بیان دینے پر بھی سوال اٹھایا ہے۔
نرملاسیتا رمن نے اتوار کو نئی دہلی میں حکمرا ں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صدر دفتر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اوباما کے دورِ صدارت میں چھ مسلم ملکوں پر بمباری کی گئی۔ ان کے بقول شام اور یمن سے لے کر سعودی عرب تک 26 ہزار سے زیادہ بم گرائے گئے۔
ان کے مطابق یہ بات باعث حیرت ہے کہ ایسے وقت پر جب کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی امریکہ کے اسٹیٹ وزٹ پر تھے، ایک سابق امریکی صدر بھارتی مسلمانوں کے بارے میں ایسا بیان دے رہے ہیں۔ ان کے بقول ہم امریکہ کے ساتھ اچھے رشتے چاہتے ہیں لیکن وہاں بھی بھارت میں مذہبی آزادی سے متعلق سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کانگریس پر وزیرِ اعظم اور ان کی حکومت کے خلاف غیر ممالک میں مہم چلانے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ براک اوباما اس مہم سے متاثر معلوم ہوتے ہیں۔
ان کے بقول اوباما بھارت میں انسانی حقوق کے سلسلے میں کانگریس کی جانب سے وزیر اعظم مودی اور ان کی حکومت کے خلاف چلائی جانے والی منظم مہم کے شکار بن گئے ہیں۔
سیتا رمن نے یاد دلایا کہ چھ مسلم ملکوں بحرین، مالدیپ، متحدہ عرب امارات، افغانستان اور سعودی عرب نے وزیر اعظم مودی کو اپنے اعلیٰ ترین سول اعزاز سے نوازا ہے او راب مصر میں بھی انہیں ایسا ہی ایک سرکاری اعزاز دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ اس وقت جب کہ مودی امریکہ میں تھے، براک اوباما نے امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے انسانی حقوق کا معاملہ اٹھایا تھا۔
SEE ALSO: ہندو اکثریت والے بھارت میں مسلم اقلیت کا تحفظ اہم ہے، سابق امریکی صدر اوباماان کا کہنا تھا کہ اگر انہیں مودی سے، جن کو وہ اچھی طرح جانتے ہیں، تبادلۂ خیال کا موقع ملتا تو وہ ان سے کہتے کہ اگر آپ بھارت میں نسلی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کرتے ہیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ بھارت ٹوٹ جائے گا۔
’مودی حکومت جو بتاتی ہے صرف وہ سچ نہیں‘
بھارت میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس نے نرملا سیتا رمن کے اس الزام کو مسترد کر دیا کہ کانگریس مودی اور ان کی حکومت کو بدنام کرنے کے لیے دیگر ممالک میں مہم چلا رہی ہے۔
پارٹی ترجمان سجاتا پال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نرملا سیتا رمن کو اس قسم کی باتیں کرنے کی عادت ہے۔ اوباما نوبیل امن انعام یافتہ سیاست داں ہیں۔ انہوں نے جو کچھ کہا ہے اس پرغور کرنا چاہیے۔
ان کے بقول، نریندر مودی اوباما کو اپنا بے تکلف دوست بتاتے رہے ہیں تو کیا وہ اپنے دوست کو یہاں کے حالات نہیں بتا سکے جو سابق امریکی صدر اپوزیشن کی مبینہ مہم کے شکار ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا سچائی دیکھ رہی ہے۔ مودی حکومت جو بتاتی ہے صرف وہ سچ نہیں ہے۔
سجاتا پال نے کہا کہ اس وقت بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
دہلی یونیورسٹی میں ہندی کے استاد اور انسانی حقوق کے کارکن پروفیسر اپوروانند نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو حفاظت سے رہنے کا حق ہے لیکن آج کیا ہو رہا ہے۔ اتراکھنڈ کے پرولہ قصبے سے مسلمانوں کو نکالا جا رہا ہے۔ بہت سے مسلم خاندان وہاں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔
SEE ALSO: مودی اور صحافیوں کے سوالوں کے جواب، مگر کیسے؟انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم مودی امریکہ میں جا کر یہ کہتے ہیں کہ بھارت میں مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جاتا لیکن حقائق سب کے سامنے ہیں۔ مسلمان شدت پسند ہندؤوں کے نشانے پر ہیں۔
ان کے بقول اگر مسلمان اپنے تحفظ کے لیے کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اس پر ہنگامہ کیا جاتا ہے۔ اگر اسٹیٹ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے تو ایسی باتیں کیوں اٹھیں گی۔
آسام کے وزیرِ اعلیٰ کے بیان پر تنازع
حزب اختلاف نے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسواسر ما کے اس بیان پر سخت تنقید کی ہے کہ بھارت میں کئی حسین اوباما ہیں۔ آسام کی پولیس واشنگٹن جانے سے قبل ان لوگوں سے نمٹنے کو ترجیح دے گی۔
وہ صحافی روہنی سنگھ کی اس ٹوٹ کا جواب دے رہے تھے کہ کیا آسام کی پولیس براک اوباما کو گرفتار کرے گی۔
خیال رہے کہ آسام کی پولیس نے کانگریس کے دو رہنماؤں پوَن کھیڑا اور جگنیش میوانی کے خلاف درج ایف آئی آر پر دہلی سے پون کھیڑہ اور گجرات جا کر جگنیش میوانی کو گرفتار کیا تھا۔
کانگریس کی سوشل میڈیا سیل کی سربراہ سپریہ شرینیت کے مطابق واشنگٹن میں پریس کانفرنس کے دوران بھار ت میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق وزیرِ اعظم مودی سے جو سوال کیا گیا تھا، ہیمنت بسوا سرما نے اسے سچ کر دکھایا ہے۔
شیو سینا کی رکن پارلیمنٹ پرینکا چترویدی نے ایک بیان میں کہا کہ براک اوباما کو حسین اوباما بتا کر آسام کے وزیر اعلیٰ نے یہ ثابت کر دیا کہ ان کا بیان غلط نہیں تھا۔
ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے ترجمان ساکیت گوکھلے کے مطابق وزیر اعظم کے اس بیان کے چوبیس گھنٹے کے اندر، کہ بھارت میں مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جاتا، ہیمنت بسوا سرما نے براک اوباما کو حسین اوباما کہہ کر مسلمانوں کو ڈھکے چھپے انداز میں دھمکی دے دی۔
سوشل میڈیا میں اس معاملے پر الگ الگ رائے ظاہر کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ اوباما کے بیان کی تائید تو کچھ مخالفت کر رہے ہیں۔
تائید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے جو کچھ کہا ہے وہ غلط نہیں ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن اور دیگر عالمی اداروں نے اس صورتِ حال پر اظہار تشویش کیا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ براک اوباما کو بھارت کے اندرونی امور میں بولنے کا کوئی حق نہیں۔ وہ امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں وزیر اعظم مودی کے دیے گئے بیان کی تائید کر تے کہ بھارت ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔