سندھ کی صورتحال پیپلز پارٹی کے لیے سیاسی فوائد کا باعث ہو سکتی ہے، مبصرین

سندھ کی صورتحال پیپلز پارٹی کے لیے سیاسی فوائد کا باعث ہو سکتی ہے، مبصرین

پاکستانی سیاست میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے مبصرین کے مطابق ایک مرتبہ پھر اپنے لئے کھڑی کی گئی مشکلات کو بڑی ہوشیاری سے آسانی میں بدل کر ناقدین کے منہ بند کردئیے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سندھ میں ایم کیو ایم سے اختلافات کا فائدہ اٹھانے کے بعد اب اس کی نظریں پنجاب پر مرکوز ہیں اور آنے والے چند دن مسلم لیگ ن کی قیادت کیلئے کڑا امتحان ثابت ہوں گے۔

حکومت میں رہتے ہوئے جب بھی ایم کیو ایم نے عوامی مفادات کی بات کی اسے یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ حکمراں اتحاد کا حصہ ہوتے ہوئے اسے مسائل کی نشاندہی کرنے کے بجائے انہیں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاہم جب اس نے حکومت کو خیر باد کہا توپیپلزپارٹی نے موقع غنیمت جانتے ہوئے ایک طرف تو کمشنری نظام اور حیدر آباد کی پرانی حیثیت بحال کر دی تو دوسری جانب صوبے میں بڑے پیمانے پر مرضی کے مطابق کراچی میں پولیس افسران کے تبادلے کر دئیے ۔یہ تمام اقدامات ایم کیو ایم کے ساتھ رہتے ہوئے ناممکن تھے ۔

حکومت سے علیحدگی کے بعد ایم کیو ایم کے سخت بیانات پر پیپلزپارٹی کی قیادت نے مذکورہ مقاصد کے حصول تک ایک جانب تو انتہائی صبر و تحمل سے کام لیا اور ایم کیو ایم کے وزراء کے استعفیٰ قبول نہیں کیے تو دوسری جانب مسلم لیگ فنکشنل اور مسلم لیگ ق کو بھی سندھ حکومت میں شمولیت پر آمادہ کر لیا ۔

مسلم لیگ ق کی سندھ حکومت میں شمولیت سے وہ دو دھڑوں میں بٹتی نظر آ رہی ہے اور سابق وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کا دھڑا کسی صورت سندھ میں پیپلزپارٹی سے اتحاد کا حامی نہیں جس کا فائدہ بھی آئندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کو ہی ہو گا ۔

اس تمام صورتحال میں ایم کیو ایم یہ الزام بھی عائد کر رہی ہے کہ اس کے کارکنان کو گرفتار کر کے حیدر آباد اور اندرون سندھ کی جیلوں میں منتقل کیا جا رہا ہے ۔ میڈیا رپورٹس بھی اس بات کی تصدیق کر رہی ہیں کہ حیدر آباد ، بدین اور میر پور خاص کے علاوہ اندرون سندھ میں کراچی سے قیدیوں کی منتقلی کے لئے خصوصی سیل بنائے جا ر ہے ہیں ۔

ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ ایک خاص حکمت عملی کے تحت اس کے وزراء کے استعفیٰ نہ قبول کر کے اسے اس حد تک مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ سندھ اسمبلی میں اس عمل پر احتجاج کیلئے مجبور ہو گئی اور اب پیپلزپارٹی یہ کہہ سکتی ہے کہ مفاہمتی پالیسی کو سبوتاژ کرنے میں ایم کیو ایم کا ہاتھ ہے ، ہمارے دروازے تو ہمیشہ اس کے لئے کھلے رہیں گے ۔

ماہرین کے مطابق پیپلزپارٹی کاسندھ میں مفادات کے حصول کے بعد اب اگلا ہدف پنجاب ہو گا اور مسلم لیگ ق کے ساتھ مل کر پنجاب میں مسلم لیگ ن کا دھڑن تختہ کیا جا سکتا ہے جس کے بعد چاروں صوبوں میں اس کی حکومت بن سکتی ہے ، اگر چہ پنجاب میں فارووڈ بلاک مسلم لیگ ن کا حامی نظر آ رہا ہے تاہم اس کے بھی بہت سے تحفظات سامنے آ رہے ہیں ۔

پنجاب میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق اگر اتحاد ی حکومت قائم کر لیتے ہیں توآئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا ، اس کے علاوہ تحریک انصاف بھی آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی ایک بڑی حریف ثابت ہو سکتی ہے ۔سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ کے فوری بعد پنجاب میں مسلم لیگ ق کے اتحاد سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے لئے مکمل طور پر تیار ہے اورصحیح وقت پر بریکنگ نیوز آسکتی ہے۔