سندھ میں سکھوں کی شادی کے لیے علیحدہ قانون بنانے کا مطالبہ

پاکستان سکھ کونسل کے پیٹرن ان چیف سردار رمیش سنگھ خالصہ

آصف علی زرداری اور بلاول بھٹوزرداری نے سینیٹ میں میسیحی برادری کی نمائندگی کے لئے انور لال ڈین اور کرشنا کوہلی جیسے غریب لوگوں کو چنا۔

پاکستان دنیا کا پہلا ملک ہے جس کے ایک صوبےپنجاب کی اسمبلی نے سکھ مذہب کے ماننے والوں کو ان کی شادی کی رجسٹریشن کے لئے دیگر اقلیتوں سے علیحدہ سکھ میرج بل منظور کیا ہے ۔ دنیا کے کسی اور ملک یہاں تک کہ بھارت میں بھی سکھ میرج ایکٹ موجود نہیں بلکہ ہندو میرج ایکٹ کے تحت ہی ان کی شادیاں رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔

پاکستان سکھ کونسل کے پیٹرن ان چیف سردار رمیش سنگھ خالصہ نے وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں حکومت پنجاب کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے تشکر کا اظہار کیا ۔ بل کی منظوری کا کریڈیٹ انہوں نے پاکستان کے پہلے سکھ ایم پی اے رمیش سنگھ اروڑہ کو دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سکھ میرج رجسٹریشن کا کوئی طریقہ کار طے نہیں تھا۔ سکھ مت میں شادی کو ’آنند کاراج‘ کہا جاتا ہے جو گردوارے میں انجام پاتا ہے ۔ اگرچہ سکھ ازم ، ہندو ازم اور جین ازم تینوں الگ الگ مذاہب ہیں اور تینوں میں شادی کا طریقہ کار بھی یکسر مختلف ہے لیکن اس کے باوجود ان تینوں مذاہب کو 2016 میں سندھ اسمبلی میں پاس ہونے والے بل کے تحت ہی یکجا کردیا گیا تھا جو سکھوں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ’’جس طرح پنجاب اسمبلی میں سکھ میرج ایکٹ منظور کیا گیا اسی طرح سندھ اور باقی صوبوں میں بھی اسے منظور کیا جائے ۔

وی او اے سے تبادلہ خیال میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ دنیا بھر میں آباد پوری سکھ برادری کی کوشش تھی کہ پاکستان میں سکھ میریج ایکٹ ہونا چاہئے ۔ پاکستان دنیا کا پہلا ملک ہے جس کی پنجاب اسمبلی میں پہلا ’آنند کراج‘ میرج ایکٹ منظور کیا گیا۔

بھارت جیسے ملک میں جہاں سکھوں کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے وہاں بھی آج تک سکھ میرج ایکٹ نہیں ۔ پاکستان میں اس بل کے پاس ہوتے ہی امریکہ، برطانیہ، کینیڈا ، آسٹریلیا اور دنیا کے دیگر ممالک میں رہنے والے لوگوں کے فون آنے شروع ہوگئے جنہوں نے پاکستان سکھ برادری کو مبارکباد دی ۔ پاکستان میں سکھوں کی آبادی 25 سے 26 ہزار ہے لیکن اتنی کم آبادی ہونے کے باوجود پاکستان حکومت نے، پاکستان کے عوام اور آئین نے اس بل کی منظوری دی۔ یہ پوری دنیا میں آباد سکھ برادی کے لئے انتہائی خوشی کی بات ہے۔

کبھی یہ فرق نہیں سمجھا کہ سکھ الگ ہیں۔ ان کے ساتھ ظلم یا زیادتی ہوتی ہے۔ اس بل کو اکثریت سے منظور کیا گیا ہے ۔ کسی نے بھی اس بل پر اعتراض نہیں کیا جن میں پاکستان کی دیگر پارٹیاں بھی شامل ہیں ۔ ہم ان تمام پارٹیز کے شکر گزار ہیں جن کی منظوری سے پوری دنیا کو مثبت پیغام گیا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا ’سکھوں کے لئے پاکستان کی سر زمین نہایت مقدس ہے ۔ سکھ مذہب کے بانی اور پہلے گورو نانک دیوجی کا جنم استھان ننکانہ صاحب میں ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کئی تاریخی مقامات ایسے ہیں جو سکھوں کے لئے مقدس ترین ہیں ۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی تاریخ بھی پاکستان سے جڑی ہوئی ہے ۔گورو نانک دیوجی نےدنیا سے رخصت ہوتے ہوئے اپنی زندگی کے آخری دن بھی کرتار پور نارووال میں گزارے۔ اس لئے سکھ برادری کے دل پاکستان کی سرزمین کے لئےدھڑکتے ہیں خواہ وہ کسی بھی ملک میں رہتے ہوں۔ اس کا احساس مجھے اس وقت زیادہ ہوا جب میں پہلی بار امریکہ اور کینیڈا گیا۔ وہاں کے لوگوں نے مجھے جو پیار اور احترام دیا اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ میں گرو کی مقدس دھرتی سے وہاں گیا تھا اور گرو کی سرزمین پر بستا ہوں۔‘‘

سردار رمیش سنگھ خالصہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا بھر میں آباد سکھ برادری پاکستان آتے جاتے رہنا چاہتی ہے ۔ برادری کو پاکستانی عوام کی مہمان نوازی پر بہت ناز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جب بھی وہاں جاتے ہیں لوگ ہماری عزت تو کرتے ہی ہیں ہم سے کھانے ، لسی یہاں تک کہ چائے کے بھی پیسے نہیں لیتے ۔ اس بل کی منظوری کے بعد سکھ برادری کو ہی نہیں پوری دنیا کو ایک اچھا میسج گیا ہے ۔ یہ بل اکثریت سے اور سب کی سپورٹ سے منظور ہوا ہے لہذا پوری دنیا میں پاکستان کا امیج مزید مثبت ہوا ہے ۔

رمیش خالصہ نےمطالبہ کیا کہ ’اب سندھ حکومت کو بھی اس پر سوچنا چاہئے کیونکہ سندھ میں بھی 10یا 12 ہزار سکھ رہتے ہیں ۔ سندھ کے ضلع گھوٹکی، جیکب آباد اور کشمور وغیرہ میں ہمارا ووٹ بینک بھی ہے جو ہمیشہ سے پی پی کو سپورٹ کرتا آیا ہے ۔ انہوں نے پی پی سے کبھی کچھ نہیں مانگا لیکن اگر پنجاب حکومت نے پہلا قدم اٹھایا ہے تو دوسرا قدم سندھ حکومت کو اٹھانا چاہئے ۔ پی پی کی قیادت کو چاہئے کہ یہاں بھی سکھ میرج ایکٹ لائے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے وضاحت کی کہ’ 2016میں سندھ میں ہندو میرج ایکٹ پاس ہوا تھا لیکن بدقسمتی سے اس ایکٹ میں نہ تو سکھ برادری سے کوئی مشاورت لی گئی اور نہ ہی کسی نے ہمیں بلایا۔ سندھ میں ہمارا کوئی بھی ایم پی اے نہیں جس کی وجہ سے ہمیں تکالیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیوں کہ قانون سازی وہی کرسکتے ہیں جو پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوں اور ہمارا تو وہاں ایک بھی نمائندہ نہیں ۔

سندھ میں ہندو ایم این ایز اور ایم پی ایز تو ہیں لیکن وہ اسمبلی میں سکھ برادری کی بات نہیں کرتے ۔یہ لوگ اقلیتوں کی مخصوص نشست پر منتخب ہوتے آئے ہیں جن کا کام یہ ہونا چاہئے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ لیکن وہ صرف ایک برادری کی نمائندگی تک محدود رہتے ہیں۔ سندھ میریج ایکٹ جب آیا تو انہوں نے جین مت اور سکھ مذہب کو ملادیا جو سراسر زیادتی ہے۔ ہمارا تو میریج کا طریقہ کار ہی مختلف ہے ۔ ہندو اگر اگنی کے گرد پھیرے لیتے ہیں تو سکھ مذہب میں گورو گرنتھ صاحب کے پھیرے لئے جاتے ہیں ۔ پہلا فرق تو یہی ہے اس کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو ہندوں او رسکھوں کو الگ الگ کرتی ہیں۔

آصف علی زرداری اور بلاول بھٹوز رداری نے سینیٹ میں مسیحی برادری کی نمائندگی کے لئے انور لا ل ڈین اور کرشنا کوہلی جیسے غریب لوگوں کو چنا۔ اس سے بھی دنیا بھر میں ایک مثبت میسج گیا ۔ لہذا اسی طرح پیپلز پارٹی کو چاہئے کہ وہ سندھ میں آباد سکھ برادری کو بھی نمائندگی دے اور سکھ میرج ایکٹ کا مطالبہ پورا کرے۔ بنیادی حقوق تو پوری دنیا کے مذاہب کے ماننے والوں کو دیئے جاتے ہیں پھر سکھ برادری ان سے محروم کیوں رہے ۔

سکھ برادری کو میرج ایکٹ نہ ہونے کی وجہ سے کن کن مسائل کا سامنا ہے ، اس سوال پر رمیش سنگھ خالصہ کا کہنا تھا کہ سن 2016 میں پاس کردہ ہندو میرج ایکٹ میں ہندوؤں اور سکھوں کی شادیوں کو ملادیا گیا ہے جبکہ یہ دونوں الگ الگ ہیں۔ہماری برادری کو توپتہ ہی نہیں کہ شادی کہاں اور کیسے رجسٹر کرانا ہے ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ برادری سے مشاورت ہی نہیں ہوئی نہ ہم سے کچھ پوچھا گیا نہ ہمیں کچھ بتایا گیا ۔ اس لئے کسی کو پتہ ہی نہیں کہ شادی کس طرح رجسٹر ہوگی۔ ہندو ایکٹ کی کاپی بھی ہمیں کل ملی ہے جس کا ہم جائزہ لیں گے ۔

سکھو ں میں’’آنند کاراج ‘‘ یعنی شادی کی رسم گردوارے میں انجام پاتی ہے ۔ شادی کے بعد گردوارے کا ہیڈ گرنتھی یا ہیڈ پریسٹ گردوارے کے لیٹر ہیڈ پر لکھ کر دیتا ہے کہ فلاں فلاں فریقوں میں شادی ہوئی ہے ۔ اس پر دو گواہوں کے دستخط بھی ہوتے ہیں ۔ یہ لیٹر یونین کونسل میں جمع کرایا جاتا ہے۔ کونسل شادی سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے جسے نادرہ کے آفس میں جمع کرایا جاتا ہے جو باقاعدہ اور مصدقہ شادی کا سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے۔ اس کے بعد دونوں فریقوں کو شادی شدہ ہونے کا اسٹیٹس ملتا ہے۔ یہ طریقہ کار پہلے بھی چل رہا تھا اور 2016 کا بل پاس ہونے کے بعد بھی چل رہا ہے کیونکہ برادری رجسٹریشن کرانے کے طریقہ کار سے لاعلم ہے۔ بدقسمتی سے چونکہ یہ ہندو میرج ایکٹ ہے اس لئے ہمارے مذہب کی اس میں ایک بھی چیز نہیں۔ رجسٹریشن کی حد تک تو ہم رضامند ہیں لیکن اس میں بھی سکھوں کو کوئی ذکر نہیں ۔ ہمارا ڈیٹا الگ رجسٹر ہوگا یا ہم بھی ہندوؤں میں ہی گنے جائیں گے، اس پر بھی سکھ برادی کنفیوزڈ ہے

سکھ برادری میں شادی کے وقت جو دعا ہوتی ہے اسے ارداس کہتے ہیں جبکہ ہندؤں میں یہ ویدی کہلاتی ہے اور جسے ان کا پنڈت پڑھتا ہے ۔ ہمارے یہاں لڑکی کی شادی کی عمر 18سال ہے ۔ بالغ بھی اٹھارہ سال کی لڑکی کو تصور کیا جاتا ہے ۔ سکھ برادری میں باپ کے خاندان میں لڑکی کی شادی نہیں ہوسکتی کیوں کہ بلڈ ریلیشن آجاتا ہے ۔ سکھوں کو تمام عمر میں صرف ایک ہی شادی کرنے کا حق ہوتا ہے ۔ دوسری شادی صرف اس صورت میں کی جاتی ہے جبکہ شوہر یا بیوی میں سے کسی ایک کا انتقال ہوجائے ۔ طلاق کا ہماری برادری میں کوئی تصور نہیں اسی لئے پاکستان میں آج تک سکھ برادری کے کسی جوڑے کی طلاق نہیں ہوئی۔ یہ سب باتیں ہم نے سکھ میرج ایکٹ کے ڈرافٹ میں لکھی ہیں جو حکومت نے ہم سے مانگا تو ہمیں خوشی ہوگی۔

ہمیں تو آج تک یہ پتہ نہیں کہ ہماری آبادی کتنی ہے ۔ مردم شماری میں مذہب کا خانہ شامل ہی نہیں۔ نہ شناختی کارڈ میں ایسا کوئی خانہ ہے۔ البتہ پاسپورٹ میں ہے ۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ مردم شماری کے خانے میں مذہب کا اضافہ کیا جائے لیکن وہ حکم بھی مردم شماری کے بعد آیا تھا۔ لہذا یہ کہا گیا کہ اب تو اگلی مردم شماری میں ہی یہ ممکن ہوسکے گا۔