سندھ کے گرلز ہاسٹلز میں پولیس کی خاتون کمانڈوز کی تعیناتی کیوں؟

فائل فوٹو

سندھ پولیس نے سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر صوبے کی تمام سرکاری جامعات کے گرلز ہاسٹل میں خواتین پولیس اہل کاروں کی تعیناتی شروع کردی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں پولیس کی پیش کردہ دستاویزات کے مطابق شہید محترمہ بے نظیر بھٹو میڈیکل یونی ورسٹی، گرلز کیڈٹ کالج لاڑکانہ، نرسنگ ہاسٹل لاڑکانہ، قائد عوام یونی ورسٹی ہاسٹل لاڑکانہ، کمیونٹی مڈوائفری اسکول جیکب آباد، شاہ لطیف یونی ورسٹی خیرپور، کراچی میں قائم گرلز ہاسٹلز، ٹنڈو جام میں قائم سندھ ایگری کلچر یونی ورسٹی، سندھ یونی ورسٹی کے کیمپس، مہران یونی ورسٹی جامشورو سمیت صوبے بھر کی تمام جامعات اور کالجز کے گرلز ہاسٹلز میں 98 اہل کاروں کو تعینات کردیا گیا ہے جن میں 4 خواتین کمانڈوز بھی شامل ہیں۔

سندھ ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ عدالتی حکم کے برعکس خواتین کمانڈوز کے بجائے مرد اہل کاروں کو کیوں تعنیات کیا گیا؟ جس پر سندھ پولیس نے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ صوبے بھر میں لیڈی پولیس اہل کاروں کی کُل تعداد محض 2140 ہے جن میں سے بہت کم تعداد کمانڈوز کی ہے۔ عدالت نے پولیس کو کہا کہ تمام گرلز ہاسٹل میں اہل کاروں کی فوری تعیناتی کو یقینی بنایا جائے اور ایسا نہ کرنے پر پولیس افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے گی۔

پولیس تعیناتی کی وجہ طالبات کی مبینہ خودکشیاں اور ہراساں کرنے کی شکایات

اس فیصلے کے پیچھے گزشتہ کچھ عرصے میں ہاسٹلز میں رہائش پذیر طالبات کی خودکشیوں کے پے درپے واقعات کے علاوہ ہراساں کیے جانے کی متعدد شکایات بھی ہیں۔

16 ستمبر 2019 کو بے نظیر بھٹو میڈیکل یونی ورسٹی لاڑکانہ کے آصفہ ڈینٹل کالج کے ہاسٹل کی فائنل ایئر کی طالبہ نمرتا چندانی کماری کی لاش ملی تھی۔ اس واقعے کو شروع میں خودکشی قرار دیا گیا لیکن نمرتا کے اہل خانہ نے اس واقعہ کو خود کشی ماننے سے انکار کر دیا، جس کے بعد سندھ حکومت نے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کروائی۔ اس کی رپورٹ دو سال کے بعد منظر عام پر آئی جس میں نمرتا کی موت کا ذمہ دار اس کے دوست مہران ابڑو کی جانب سے شادی سے انکار کو قراردیا گیا۔ انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نمرتا کے بھائی نے بھی حقائق چھپائے۔

SEE ALSO: نمرتا کماری کی موت گلا گھونٹنے سے ہوئی، پوسٹ مارٹم رپورٹ


لیکن اسی یونی ورسٹی کے ہاسٹل میں 24 نومبر 2021 کو ایک اور طالبہ نوشین کاظمی بھی مردہ حالت میں پائی گئی۔ پولیس کے مطابق پاس پڑے خط میں اس نے مرنے سے قبل لکھا کہ وہ اپنی مرضی سے خود کشی کررہی ہے۔ اس واقعے پر بھی بہت ہنگامہ ہوا، جس کے بعد جامعہ میں امتحانات منسوخ کرنا پڑے اور طالبات کو ہاسٹلز سے ان کے گھر وں میں بھیج دیا گیا، جب کہ سندھ حکومت نے شدید عوامی دباو پر عدالتی انکوائری کرانے کا فیصلہ کیا جو اب تک جاری ہے۔

اس کے بعد فروری میں لیاقت یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی ایک تہلکہ خیز رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈاکٹر نمرتا کماری اور ڈاکٹر

SEE ALSO: 'خاتون بچاو' اور 'بیٹی بچاو' مہمات سے صنف کی بنیاد پر تشدد کے خاتمے میں کیسے مدد ملے گی؟

کے ڈی این اے سے معلوم ہوا ہے کہ دونوں واقعات میں کوئی ایک ہی مشتبہ شخص ملوث ہوسکتا ہے۔ فرانزک رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈاکٹر نمرتا کیس میں ملنے والے ڈی این اے اور نوشین کاظمی کے جسم اور کپڑوں سے ملنے والے ڈی این اے کے 50 فیصد اجزاء ایک ہی شخص کے لگتے ہیں۔

اس رپورٹ اور پھر پیپلز میڈیکل یونیورسٹی فار وومن نواب شاہ کی ہاؤس آفیسر آف نرسنگ پروین رند نے یونی ورسٹی کے ایک انتظامی افسر پر ہراسانی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جان کو خطرات لاحق ہیں۔

میڈیا رپورٹس پر جہاں سندھ ہائی کورٹ نے واقعے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا، وہیں سندھ حکومت نے بھی دباؤ اور دیگر کیسز سامنے آنے کے بعد لیاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ اور لاڑکانہ میڈیکل یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر انیلہ عطاء کو جبری رخصت پر بھیجا اور واقعات کی انکوائری کا حکم دیا۔ پولیس کے مطابق اس سے قبل 2017 میں سندھ یونی ورسٹی کی ایک اور طالبہ نائلہ رند نے بھی ایک لیکچرر کی مبینہ بلیک میلنگ سے تنگ آکر خود کشی کرلی تھی، جس پر ملزم کو گرفتار کرکے اس کے خلاف کیس دائر کیا گیا تھا۔ تاہم کیس کا مرکزی ملزم پہلے ہی ضمانت حاصل کرچکا ہے۔

" طالبات کو پولیس کمانڈوز کی تعیناتی سے تحفظ نہیں مل سکتا"

انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کے خیال میں ان واقعات کے بعد لیڈی پولیس اہل کاروں کی تعیناتی سے طالبات کو ہراساں کیے جانے کے واقعات رکنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ سندھ یونی ورسٹی میں پروفیسر اور کالم نگار ڈاکٹر عرفانہ ملاح کا کہنا ہے کہ پولیس کی تعیناتی مسئلے کا حل نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے جو حل بتایا وہ حل نہیں ، اور یہ ضروری نہیں کہ ججز کو جامعات کے مکینزم کا معلوم بھی ہو۔ ہر یونی ورسٹی کی اپنی سیکیورٹی موجود ہوتی ہے۔ ایسے میں پولیس کو بھی شامل کرنے سے کیا گارنٹی ہوگی کہ یہ واقعات رُک جائیں گے۔ کیونکہ پولیس تو جامعہ کی انتظامیہ کو جوابدہ بھی نہیں ہو گی۔
ڈاکٹر ملاح کا کہنا تھا کہ اس کا حل یہ ہے کہ جامعات کو جیل نہ بنایا جائے۔ جامعات میں آنے والی لڑکیوں بہتر ماحول فراہم کریں۔ انہیں خود مختار بنائیں۔ ان پر حد سے زیادہ نظر نہ رکھی جائے۔ بلکہ ہراسان کیے جانے کے واقعات سے متعلق کمیٹیوں کو مضبوط کیا جائے تاکہ شکایات کا فوری ازالہ ہوسکے۔

تعلیمی اداروں میں مسلح اہل کاروں کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی تھی


ایک اور سرگرم کارکن اور عورت فاونڈیشن کی رہنما مہناز رحمان کا کہنا ہے کہ ہمارے دور میں جامعات کے اندر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا آنا ناممکن تھا کیونکہ یہ تصور کیا جاتا تھا کہ تعلیمی اداروں کا ایک تقدس ہے، جہاں اسلحے کے ساتھ نہیں آیا جاسکتا۔ انہوں نے بتایا کہ ایئر مارشل نور خان جب گورنر مغربی پاکستان تھے تو ایک بار انہیں جامعہ کراچی میں داخلے کی اجازت صرف اس لیے نہیں مل سکی تھی کیونکہ ان کی گاڑی میں مسلح پولیس اہل کار موجود تھے۔ لیکن بعد میں طلبہ سیاست میں تشدد کے عنصر کی وجہ سے جامعات کا ماحول یکسر تبدیل ہوگیا۔ اور پھر کئی جامعات میں امن کے لیے نیم فوجی دستی بھی تعینات کیے گئے، جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔

SEE ALSO: کیا خواتین ہراسانی کا جھوٹا الزام لگاتی ہیں؟


ہراساں کرنے اور بلیک میلنگ کے مجرموں کو سزائیں دینے کی ضرورت ہے


مہناز رحمان کا کہنا ہے کہ ہراساں کیے جانے اور عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے اداروں کا ماحول بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ کی جامعات میں کئی لوگوں کے تو نام تک سامنے آئے، متاثرہ خواتین نے ان کی شناخت کی لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ ایسے بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کسی قسم کی قانونی کارروائی سے استثنی حاصل ہے۔ مہناز رحمان کا کہنا ہے کہ محض کمانڈوز کی تعیناتی سے خواتین کو تحفظ نہیں ملے گا بلکہ ایسے کیسز میں فوری اور جامع تحقیقات کے بعد مجرموں کو سزائیں دینے اور انتظامی ایکشن لینے سے تحفظ مل پائے گا۔

حکومت تمام ضروری اقدامات کر رہی ہے


صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ان واقعات پر تحقیقات کررہی ہے اور ذمہ داران کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔ وزیر بورڈز و جامعات سندھ اسماعیل راہو کا کہنا ہے کہ لاڑکانہ میڈیکل یونیورسٹی میں 2019 میں نمرتا کے واقعے پر سندھ حکومت نے جوڈیشل انکوائری کروائی اور اس پر عمل درآمد کے لیے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صاف اور شفاف تحقیقات کے لیے ہم نے متاثرہ جامعات کے وائس چانسلرزکو جبری چھٹی پر بھیجا۔ اسماعیل راہو نے کہا کہ پروین رند کے واقعے کی بھی تحقیقات جاری ہیں اور اس واقعہ کے بعد ہاسٹل انچارج اور ان کی اسسٹنٹ کو بھی معطل کردیا گیا ہے۔ جہاں انکوائری پر کسی کے اثر انداز ہونے سے متعلق طالبات یا ان کے والدین کے خدشات ہیں تو انہیں بھی دور کیا جارہا ہے۔