سندھ کے سرکاری پرائمری اسکولوں میں خالی آسامیوں پر تقرریوں کے لیے مطلوبہ معیار کے اساتذہ نہ ملنے پر ٹیسٹ میں کامیابی کا معیار کم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ تاکہ مزید اساتذہ کی بھرتی کو ممکن بنایا جاسکے۔
وزیرِ تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ نے بتایا ہے کہ اس حوالے سے سفارشات صوبائی کابینہ کو بھیجی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ محکمۂ تعلیم نے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) سکھر کی طرف سے اساتذہ کے لیے گئے ٹیسٹ کے ہر مضمون میں 45 فی صد نمبر حاصل کرنے کی شرط ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ اور خواتین امیدواروں کی حوصلہ افزائی کے لیے خواتین امیدواروں کو ٹیسٹ پاسنگ مارکس میں مزید رعایت دی جائے گی اور ان کے پاسنگ مارکس 40 تک کرنے کی سفارش کی جا رہی ہے۔
تاہم وزیرِ تعلیم کے مطابق مرد امیدواروں کے لیے مجموعی پاسنگ مارکس 55 ہی رہیں گے۔
انہوں نے واضح کیا کہ صوبے کے پسماندہ علاقوں کے امیدواروں کو بھی رعایت دینے کا معامہ زیرِ غور ہے اور اس بارے میں بھی سندھ کابینہ ہی نے حتمی فیصلہ کرنا ہے۔
اساتذہ کی بھرتی کے ٹیسٹ انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سکھر کے زیرِ انتظام ستمبر میں لیے گئے تھے جن کے تحت گریڈ 14 میں بھرتیاں کی جائیں گی۔
ان میں جونئیر ایلیمنٹری ٹیچرز اور پرائمری اسکول ٹیچرز کی 14 ہزار 39 آسامیوں کو پُر کیا جانا ہے۔
ان امتحانات میں مجموعی طور پر ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد امیدوار شریک ہوئے تھے۔ لیکن ان میں سے محض 1258 امیدوار پاس ہو سکے یعنی پاس ہونے والے امیدواروں کا تناسب ایک فی صد سے بھی کم رہا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سے قبل سید سردار شاہ نے پانچ اکتوبر کو اساتذہ کے عالمی دن کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی ذاتی رائے میں اساتذہ کی بھرتی کے عمل میں ایک مرتبہ کڑوی گولی کھانی پڑے گی اور تین ماہ بعد دوسرا ٹیسٹ لیا جائے اور اگر اس میں بھی کچھ امیدوار فیل ہوئے تو تیسری بار بھی ٹیسٹ لے لیا جائے لیکن میرٹ کے معیار کو کسی صورت کم نہ کیا جائے۔
ان کے مطابق اس عمل کو شفاف رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہے اور اس میں ہر قیمت پر میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ اگر ہر مضمون میں کم سے کم پاسنگ مارکس حاصل کرنے کی شرط کو ختم کر دیا جائے تو پھر ہمیں ریاضی اور سائنس پر دسترس رکھنے والے قابل اساتذہ کیسے ملیں گے؟
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت یہ نہیں دیکھنا کہ اس عمل سے ہزاروں لوگوں کے گھر کے چولھے جلیں گے۔ اس وقت یہ دیکھنا ہے کہ بھرتی ہونے والے ہزاروں اساتذہ قوم کے بچوں کا مستقبل سنوار سکیں گے اور ان کی محنت کا صلہ ہمیں 10 یا 15 برس میں نظر آئے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ محکمۂ تعلیم کے سرکاری اسکولوں میں مفت تعلیم کے باوجود بھی والدین مہنگی فیس ادا کر کے اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولز میں داخل کرانا کیوں بہتر سمجھتے ہیں۔
’یہ نتائج ماضی میں کیے گئے عجیب و غریب فیصلوں کا نتیجہ ہے‘
آخر کن وجوہات کی کی وجہ سے وزیرِ تعلیم کو اپنی رائے تبدیل کر کے اساتذہ کی بھرتیوں کے لیے معیار کو گرانا پڑا؟ ماہرینِ تعلیم کے نزدیک یہ نتائج تعلیم کے میدان میں گرتے ہوئے معیار کی سنگین صورتِ حال کی عکاسی کرتے ہیں۔
ماہر تعلیم اور 24 سال سے ٹیچرز ڈیولپمنٹ سینٹر کے ڈائریکٹر عباس حسین کا کہنا ہے کہ تعلیم کے معاملے میں جب بھی فیصلے کیے جاتے ہیں اس کے نتائج آنے میں 20 سال لگ جاتے ہیں۔ اور یہ ایک چکر ہے جو کہ جاری رہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج ان فیصلوں کا ہی پھل کاٹ رہے ہیں جو پہلے کچھ عجیب و غریب فیصلے کیے گئے تھے۔
ان کے مطابق عام طلبہ کو مقامی زبانوں یعنی اردو اور سندھی زبان میں تعلیم دی، اس میں تو کوئی برائی نہیں لیکن ریاضی کے سادہ تصورات کو بھی اردو اور سندھی میں ترجمہ کر کے تعلیم دی گئی۔ اور جب ان امیدواروں کا ٹیسٹ ہوا، ان سے یہی سوالات انگریزی میں پوچھے گئے تو اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
عباس حسین کا کہنا ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زبان کے ساتھ حد سے زیادہ وفاداریاں نبھانے اور اس سے متعلق فیصلوں کو سیاست زدہ کرنے سے پوری نسل کو ایک عجیب صورتِ حال میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آٹھویں کلاس کا بچہ جن سوالات کا جواب آسانی سے نکال لیتا تھا وہ سرکاری اسکولوں سے پاس ہونے والے امیدوار حل کرنے میں ناکام ہوئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عباس حسین کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں کہ بچوں کو پانچویں جماعت تک مادری زبان ہی میں تعلیم دی جائے۔ میڈیم آف انسٹرکشن انگریزی نہیں کرنا لیکن انگریزی، ریاضی اور سائنس کو مضمون کے طور پر ہی پڑھایا جائے۔
عباس حسین کے مطابق تعلیمی نظام کی خرابی کے پیچھے درحقیقت یہ سوچ کارفرما ہے کہ تعلیم کو کبھی خاص اہمیت دی ہی نہیں گئی۔ تعلیم کو ہمارا مسئلہ سمجھا ہی نہیں گیا۔
ایک اور ماہر تعلیم اور ’سندھ ایجوکیشن سیکٹر ریفارمز پلان‘ کے لوکل ایجوکیشن گروپ کی کور ممبر رضا بیلا کے خیال میں اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبے میں نظامِ تعلیم کو بڑے چیلنجز درپیش ہیں اور پرائمری کے اساتذہ کے امتحانات کے نتائج یہ بالکل واضح کرتے ہیں۔
ان کے خیال میں یہ حیران کر دینے والی بات اس لیے نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ ایسی ہی صورتِ حال اس وقت بھی سامنے آتی ہے جب ملکی سطح پر سینٹرل سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) کے امتحانات کے نتائج سامنے آتے ہیں جس میں بڑی تعداد میں امیدوار ناکام ہو جاتے ہیں۔
رضا بیلا کا کہنا تھا کہ سندھ میں تعلیمی نظام میں خامیوں کے حل میں مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ ماضی کی نسبت اب اس جانب زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔
ان کے مطابق سندھ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے تین لاکھ سے زائد اساتذہ کی ڈیجیٹل لرننگ ممکن بنائی ہے۔ جو کہ بڑی کامیابی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بار محکمۂ تعلیم کی جانب سے شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے آزادانہ طور پر اساتذہ کو بھرتی کرنے کا عمل بھی تعریف کے قابل ہے۔ ماضی میں یہ عمل بدعنوانی، اقربا پروری، جعلی لیٹرز تیار کر کے گھوسٹ اساتذہ بھرتی کرنے اور اس جیسے سنگین الزامات کی لپیٹ میں رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے اسکولوں میں اساتذہ کی بھی بے حد کمی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بہرحال اساتذہ کی تقرریاں کرنی ہی ہوں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ تقرریوں کے بعد بھی اساتذہ کی ٹریننگ کا عمل جاری رکھنا ہو گا تاکہ وہ جدید تقاضوں کو سمجھ کر بچوں کو تعلیم دلانے کے قابل ہو سکیں۔