سندھ کے ضلع میرپور خاص میں گزشتہ روز ہندوؤں کی املاک نذر آتش کرنے کے بعد علاقے میں حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ پولیس نے بلوے کے الزام میں 6 افراد کو گرفتار کر لیا ہے جب کہ مبینہ طور پر قرآنی آیات کی بے حرمتی میں ملوث ایک شخص کو عدالت نے ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق میرپور خاص شہر سے 20 کلو میٹر دور پھلڈیاں کے علاقے میں اس وقت حالات کشیدہ ہو گئے جب ایک ہندو ڈاکٹر نے مبینہ طور پر ایک ایسے کاغذ میں دوا لپیٹ کر دی جس پر قرانی آیات لکھی ہوئی تھیں۔ اطلاع ملتے ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ڈاکٹر رمیش کے کلینک کے باہر جمع ہونے کے بعد کلینک اور دیگر دو دکانوں کو آگ لگا دی اور سامان بھی نذر آتش کر دیا۔ تاہم پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے علاقے میں پہنچ کر صورت حال پر قابو پا لیا۔
پولیس نے مقدمہ درج کر کے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بلوے اور ہنگامہ آرائی کے الزام میں 6 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ایس ایس پی میرپور خاص کا کہنا ہے اس واقعہ میں جو بھی ملوث ہوا، اسے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ ان کے مطابق حالات مکمل طور پر کنٹرول میں ہیں اور کسی کو شرانگیزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
میرپور خاص ڈویژن میں شامل اضلاع میں ہندو کمینوٹی کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق یہاں ہندوؤں کی تعداد 30 فیصد سے زائد ہے۔
ضلع عمر کوٹ سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی اور آل پاکستان ہندو کونسل کے رہنما ڈاکٹر رمیش کمار کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات افسوس ناک ہیں۔ اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کو دوسروں کے مذاہب کا احترام یقینی بنانا چائیے۔ ان کا کہنا تھا کہ توہین مذہب کے قوانین کا غلط استعمال روکنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ اکثر اوقات ذاتی دشمنیوں یا دیگر مذموم مقاصد کے لیے توہین مذہب کے جھوٹے الزامات عائد کر دیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں توہین مذہب ہمیشہ سے ایک حساس موضوع رہا ہے۔ ان الزامات کے تحت 1986 سے اب تک 1500 سے زائد مقدمات قائم کیے جا چکے ہیں جن میں سے کئی مقدمات میں ماتحت عدالتوں نے سزائے موت سنائی لیکن اعلیٰ عدالتوں نے کمزور شواہد کی بناء پر ملزمان کو باعزت بری کر دیا۔ اس ضمن میں حال ہی میں آسیہ بی بی کا کیس سامنے آیا جس میں تقریباً دس سال کے بعد اکتوبر 2018 میں آسیہ کو الزامات سے بری کر دیا گیا۔ جب کہ بریت کے بعد اپنی جان کے تحفظ کے لیے انہیں ملک چھوڑنا پڑا۔