ان دنوں امریکی ریاست میری لینڈ کے علاقے سلور سپرنگ میٕں سلور ڈاکس کے نام سے ایک فلمی فیسٹول جاری ہے جس میں دنیا بھر سے ایک سو سے زیادہ فلمیں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ اس سال پیش کی جانے والی زیادہ تر دستاویزی فلموں کا موضوع سماجی انصاف ہے۔
فلمیں دیکھنے کے لیے روزانہ بڑی تعداد میں شائقین آرہے ہیں ۔
ان فلموں میں سے ایک ہے ’ لو ڈیورنگ وار ٹائم‘۔ یہ فلم اس سال کی امن کوششوں کا بھی حصہ ہے۔
گیبریلا بیر کی تیار کردہ فلم کہانی سناتی ہے اسامہ کی جو مقبوضہ اسرائیل سے آیا ہوا ایک فلسطینی ہے۔اس کی شادی ایک یہودی لڑکی یاسمین سے ہوتی ہے . مگر حالات کی وجہ سے وہ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اسرائیل اسامہ کو اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دینے سے انکار کردیتا ہے ، جب کہ یاسمین کو مغربی کنارے کے علاقے میں اپنی جان کا خطرہ ہے۔
وہ جرمنی کے شہر برلن میں رہنے لگتے ہیں مگر ان کی زندگی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔فلم ساز گیبریلا بیر کہتی ہیں کہ ان کی فلم اسرائیل فلسطین تنازع کو انسانی شکل دیتی ہے۔
لوڈیورنگ وار ٹائم بھی ان میں شامل فلم ہے جنہیں عمل کے امن کی کیٹگری میں رکھا گیا ہے۔ اس فلم کی تیاری میں یوایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس نے بھی حصہ لیا ہے۔ ادارے کی نائب صدر ٹیرا سونن شائن کہتی ہیں کہ انسٹی ٹیوٹ آف پیس کا نظریہ ہے کہ معاشرے کا ہر انسان میں امن قائم کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔
http://www.youtube.com/embed/8pR1yeH7FLw
ڈائری نامی فلم کا بھی اسی قسم کا پیغام ہے۔ فلم ساز ٹم ہیتھرنٹن نے جنگ کے دوران اپنی رپورٹنگ کے دس برسوں کو 20 منٹ کی فلم میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ دل دہلادینے والی فلم بتاتی ہے کہ افغانستان یا لیبیا کی فرنٹ لائن پرلوگ کن حالات سے گذرتے ہیں۔ آج ٹم زندہ نہیں ہیں کیونکہ لیبیا کی جنگ کی کوریج کرنے کے دوران وہ دو ماہ پہلے ہلاک ہوگئے تھے۔
اسی طرح ریسکیو نامی فلم بارہ ممالک کے سفارت کاروں کی کہانی سناتی ہے جنہوں نے اپنے ممالک کا پالیسیوں سے انحراف کرکے دوسری جنگ عظیم میں ہزاروں یہودیوں کو نازی پارٹی کے ہاتھوں موت کے منہ میں جانے سے بچانے میں کردار ادا کیا تھا۔ تاہم ان کے ممالک نے انہیں اپنے عہدوں سے برطرف کردیاتھا۔
مائیکل کنگ کی فلم ہمیں بتاتی ہے کہ نسل کشی اور لوگوں کا بڑے پیمانے پر قتل ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ ان کا کہناہے کہ بیسویں صدی میں دس کروڑ افراد بڑے پیمانوں پر ہونے والی قتل و غارت میں مارے جاچکے۔ ہمار ے پاس آج لیبیا موجود ہے۔ وہاں ہزاروں افراد بے گھر ہیں۔ اس کے علاوہ سوڈان اور مصر میں کوئی بھی ان کی مدد کے لیے سامنے نہیں آتا۔
آج کل کی دنیا میں دستاویزی فلمیں زیادہ سے زیادہ افراد کے نظریات کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھنے والا میڈیم بن چکا ہے ۔