امریکہ میں سکھوں کی نوجوان نسل اور گوردوارے کا کردار

Your browser doesn’t support HTML5

ننگے پاوں اور ڈھکے ہوئے سر کے ساتھ کرتن یعنی دعائیہ گیت گاتے بچے اور بڑے، مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب کی تلاوت سنتے ہیں جسے کانتھ کہا جاتا ہے اور پھر پرساد یعنی میٹھا بانٹا جاتا ہے۔

امریکہ بھر میں تقریباً چار سے پانچ لاکھ سکھ بستے ہیں جن میں سے واشنگٹن ڈی سی کے علاقے میں تقریباً 5 ہزار سکھ آباد ہیں۔

واشنگٹن ڈی سی سے متصل امریکی ریاست ورجینیا میں قائم سکھوں کی عبادت گاہ کے دروازے ہر خاص و عام کے لیے ہر وقت کھلے رہتے ہیں۔ لیکن یہاں اتوار کے دن خاص طور پر خوب چہل پہل نظر آتی ہے کیونکہ اس دن گوردوارے میں لنگر یعنی کھانے کے ساتھ خاص عبادت بھی کی جاتی ہے جس میں بڑی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں اور جہاں سکھ مذہب کی روایات دیکھنے کو ملتی ہیں۔

ننگے پاوں اور ڈھکے ہوئے سر کے ساتھ کرتن یعنی دعائیہ گیت گاتے بچے اور بڑے، مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب کی تلاوت سنتے ہیں جسے کانتھ کہا جاتا ہے اور پھر پرساد یعنی میٹھا بانٹا جاتا ہے۔

سکھ مذہب میں گوردوارے کا ایک اہم کردار ہے۔ ورجینیا بسنے والے سکھ اپنے پورے خاندان کے ساتھ اس دن گردوارے میں آتے ہیں۔ لیکن گردوارے کے داس کرپال سنگھ کا کہنا ہے کہ پنجاب اور بھارت سے باہر آباد سکھوں کی نئی نسل مذہب سے اتنا لگاؤ نہیں رکھتی جتنا کہ اسے رکھنا چاہیے۔
کرپال سنگھ کہتے ہیں کہ اس علاقے کے بچے مذہب کے زیادہ قریب نہیں۔ نیو یارک اور نیو جرسی میں جہاں سکھ مذہب کے ماننے والے زیادہ بڑی تعداد میں آباد ہیں، وہاں بچے اہتمام کے ساتھ عبادت سیکھتے ہیں اور گوردوارے سے اپنا تعلق جوڑے رکھتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ بچوں کو سکھ مذہب کی روایات اور تاریخ سےجتنا ممکن ہو قریب رکھیں۔

اس مقصدکےلیے گوردوارے میں ایک "بھائی صاب" ہیں۔ بھائی صاب سریندر پال سنگھ۔ جو بچوں کو ہفتہ وار کلاس میں پڑھاتے ہیں اور انھیں اسی مناسبت سے بھائی صاب کہا جاتا ہے۔

سریندر پال کی کلاس میں ہر عمر کے بچے شامل ہیں۔ یعنی دو سال کے گرشانت سنگھ سے 50 سال کے راجندر سنگھ تک۔ راجندر سنگھ اپنے پورے خاندان کے ساتھ یہاں ہر اتوار کو آتے ہیں، ان کے بیٹے دو سال کے گرشانت سنگھ ابھی صرف پنجابی زبان سیکھ رہے ہیں لیکن انھیں گوردوارے کی دیگ اور زمین پر بیٹھ کر کھانا بہت پسند ہے۔ جبکہ پونیت کور، ہرجوت سنگھ اور راجون سنگھ جیسے ٹین ایجرز گوردوارے کے خوبصورت ماحول، یہاں کے سکون اور کھانے کی وجہ سے اس کلاس میں بھی آتے ہیں اور بہت کچھ سیکھ کر جاتے ہیں۔

ان بچوں کےلیے کھانا تیار کرتی ہیں اوبکر کور، جو 30 سال سے اس گردوارے کے ساتھ منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ لنگر ان کی روایات کا اہم جزو ہے جسے وہ اپنی آنے والے نسل میں منتقل کر رہی ہیں تاکہ یہ روایت ہمیشہ قائم رہے۔

اس گردوارے میں آنے کی دعوت ہمیں ایک نوجوان سکھ نوجوت سنگھ نے دی تھی جو امریکہ میں ہی پلے بڑھے اور آج ایک کامیاب وکیل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں پلنے بڑھنے والی سکھوں کی نوجوان نسل کا اپنے مذہب کے ساتھ ایک انوکھا رشتہ ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط مگر تبدیل ہو رہا ہے۔

جبکہ گوردوارے کے داس کرپال سنگھ کہتے ہیں کہ سکھ مذہب کی سب سے خوبصورت بات یہی ہے کہ ہمارے لیے ہر مذہب برابر ہے، ہر انسان قابل عزت ہے اور ہر عبادت ایک اللہ کے لیے ہے۔​