پاکستان میں حکام نے کہا ہے کہ انتہائی نامساعد موسمی حالات کے باوجود سیاچن گلیشئرپرگیاری سیکٹرمیں برفانی تودے کی لپیٹ میں آنے والے138 فوجیوں اور شہریوں کو نکالنے کے لیے امدادی کارروائیاں منگل کو چوتھے روز بھی جاری رہیں۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ مجموعی طورپر452 افراد بشمول 69 شہری بلڈوزروں اور کھدائی کرنے والی دیگر بھاری مشینوں کی مدد سے لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے پانچ مقامات پر دن رات برف ہٹانے کا کام کررہے ہیں۔
’’دو مقامات پر مشینی آلات کے ذریعے جبکہ تین مقامات پر ہاتھوں سے کھدائی کی جارہی ہے۔ امدادی کارروائیوں میں اسٹریٹیجک پلان ڈویژن (ایس پی ڈی) کی سات رکنی ٹیم زندگی کے آثار کی نشاندہی کرنے والے مخصوص آلات اور کیمروں کو استعمال کررہی ہے۔‘‘
پاکستانی حکام نے منگل کو گیاری سیکٹر کی تازہ تصاویر جاری کی ہیں جن میں جائے حادثہ اب بھی مکمل طور پر برف سے ڈھکی ہوئی ہے اور تودے کی زد میں آنے والے بٹالین ہیڈ کوارٹر کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ ان تصاویر میں برفباری کے باوجود فوجی اہلکاروں کو دستی اوزاروں سے برف کھودتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ جرمنی اور سوئٹزرلینڈ سے امدادی ٹیمیں بھی پاکستان پہنچ گئیں ہیں جو بالترتیب چھ اورتین ارکان پر مشتمل ہیں مگرخراب موسم کے باعث اُنھیں گیاری سیکٹر نہیں بھیجا جاسکا ہے۔
امریکی ماہرین پرمشتمل ایک آٹھ رکنی ٹیم اتوارکی شب ہی افغانستان سے اسلام آباد پہنچ گئی تھی اور امریکی سفارت خانے کے ترجمان مارک سٹروح نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ یہ ٹیم حکومت پاکستان کی باضابطہ درخواست کے جواب میں بھیجی گئی ہے۔
امریکی ماہرین کو پیر کے روز جائے حادثہ پر پہنچنا تھا مگر وہ بھی موسم کی خرابی کے باعث سیاچن کی طرف پرواز نہیں کرسکے۔
پیر کی شب ایک بیان میں آئی ایس پی آر نے بتایا تھا کہ ایک مقام پرکھدائی کرکے 40 فٹ لمبائی اور30 فٹ چوڑائی میں برف ہٹائی لی گئی ہے جس کی گہرائی 10 فٹ ہے۔
یہ حادثہ ہفتہ کو طلوع آفتاب سے قبل اُس وقت پیش آیا جب ایک بہت بڑے تودے نےسطح سمندر سے تقریباً پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پرگیاری سیکٹر میں قائم پاکستانی فوج کے ایک بٹالین ہیڈکوارٹر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
فوجی تنصیب میں اُس وقت فوج کے 124 اہلکار بشمول بٹالین کمانڈر اور ایک درجن سے زائد شہری ملازمین موجود تھے جو سب کے سب برف کے برف کے نیچے دب گئے جس کی گہرائی 80 فٹ بتائی گئی ہے۔
لیکن چار روز بعد بھی امدادی کارکن برفانی تودے کے نیچے پھنسے افراد تک نہیں پہنچ پائے ہیں اور ماہرین کے خیال میں اتنے روز گزرنے کے بعد کسی کا زندہ بچ جانا معجزے سے کم نہیں ہوگا۔
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ بٹالین ہیڈکوارٹر20 سال قبل گیاری سیکٹرمیں قائم کیا گیا تھا اور تب سے آج تک وہاں اس نوعیت کا حادثہ پیش نہیں آیا۔