'میرے دور میں ایک بھی شخص غیر ملک کے حوالے نہیں کیا گیا'

سابق وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ (فائل فوٹو)

منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے جسٹس (ر) جاوید اقبال کے انکشاف کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کے دور میں ایک بھی شخص غیر ملک کے حوالے نہیں کیا گیا۔

سابق وفاقی وزیرِ داخلہ آفتاب شیرپاؤ نے جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کے کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کے اس بیان کو مسترد کیا ہے کہ ان کے دورِ وزارت میں چار ہزار پاکستانیوں کو دیگر ممالک کے حوالے کیا گیا اور اس کے عوض ڈالرز وصول کیے گئے۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے پیر کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں کہا تھا کہ ان حوالگیوں پر پارلیمان میں بھی سابق فوجی صدر پرویز مشرف اور ان کے وزیرِ داخلہ آفتاب شیرپاؤ کے خلاف آواز بلند نہیں کی گئی۔

آفتاب احمد خان شیرپاؤ 2004ء سے 2007ء تک وفاقی وزیرِ داخلہ رہے تھے۔ منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے جسٹس (ر) جاوید اقبال کے انکشاف کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کے دور میں ایک بھی شخص غیر ملک کے حوالے نہیں کیا گیا۔

"میں جاوید اقبال صاحب کے کمیشن میں بھی اس بارے میں بیان دے چکا ہوں کہ اس میں وزارتِ داخلہ کا کوئی کام نہیں تھا اور نہ ہمارے وقت میں ایک شخص بھی کسی کے حوالے کیا گیا۔ اس پہلے جو کمیشن بنا تھا جسٹس ناصرہ جاوید اقبال کی سربراہی میں، اس میں بھی ہم گئے تھے اور یہ بیان دیا تھا۔ پتا نہیں کہاں سے یہ بندے لے کر آئے ہیں۔ چار ہزار لوگ کوئی معمولی بات نہیں۔ بہت بڑی بات ہے۔ ایک شخص بھی کسی اور ملک کے حوالے کرنا، یہ تو خلاف قانون ہے اور یہ ہو ہی نہیں سکتا۔"

یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ 1999ء میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار سنبھالنے والے جنرل پرویز مشرف اپنی خودنوشت میں خود یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ انھوں نے سیکڑوں مشتبہ دہشت گرد گرفتار کیے اور 369 کو امریکہ کے حوالے کیا جس پر پاکستان کو لاکھوں ڈالر کی انعامی رقم بھی حاصل ہوئی۔

اس بارے میں آفتاب شیرپاؤ کا کہنا تھا کہ امریکہ میں ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے بعد جو صورتِ حال پیدا ہوئی، اس وقت پاکستان میں جنرل مشرف چیف ایگزیکٹو تھے اور اگر اس وقت کسی کو غیر ملک کے حوالے کیا گیا تو وہ ان کے علم میں نہیں۔

"مشرف صاحب نے جو کیا مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ شروع میں 9/11 کے بعد جو صورتِ حال تھی اس وقت تو میں نہ وزیرِ داخلہ تھا اور نہ ہماری حکومت تھی۔۔۔ اس وقت اگر انھوں (جنرل مشرف) نے دیا ہو تو کسی بنیاد پر دیا ہوگا۔ وہ ان کا معاملہ ہے۔ 2004ء سے 2007ء تک ایسا واقعہ ہی نہیں ہوا۔ ہم نے کس کو حوالے کرنا تھا؟ اس دوران میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مشرف نے بھی کسی کو حوالے نہیں کیا۔ ان (جنرل مشرف) کے شروع کے دنوں کا مجھے علم نہیں۔۔۔ اس کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں۔"

سابق وزیرِ داخلہ نے کہا کہ اس بارے میں وزارتِ داخلہ کا ریکارڈ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر حکومت کو نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی دباؤ اور تنقید کا سامنا رہا ہے۔

جبری گمشدگیوں کے واقعات کی تحقیقات کے لیے حکومت نے 2011ء میں ایک کمیشن قائم کیا تھا جس کا سربراہ سپریم کورٹ کے سابق جج جاوید اقبال کو مقرر کیا گیا تھا جو اب قومی احتساب بیورو (نیب) کے بھی سربراہ ہیں۔

کمیشن کے مطابق اسے اب تک موصول ہونے والے 4929 کیسز میں سے 3219 کو نمٹایا چکا ہے جب کہ ایک ہزار سے زائد کی تحقیقات جاری ہیں۔