پاکستان کے ریلوے کے وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے اعلان کیا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی-پیک) کے تحت مین ریلوے لائن (ایم ایل-1) منصوبے کا ٹینڈر آئندہ ماہ جاری کر دیا جائے گا۔ منصوبے کے سنگِ بنیاد کی تقریب میں چین کی حکومت کی اعلیٰ شخصیات شریک ہوں گی۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے کرتے ہوئے شیخ رشید احمدنے کہا کہ منصوبے سے کراچی سے پشاور تک 1872 کلو میٹر نئی ہائی اسپیڈ ٹرین کا یہ منصوبہ پاکستان کا سب سے بڑا ترقیاتی پروجیکٹ ہے جس پر چھ ارب 80 کروڑ امریکی ڈالر لاگت آئے گی۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ منصوبہ مکمل ہونے سے ٹرین کی رفتار 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی۔ لاہور اور کراچی کے درمیان سفر کا دورانیہ صرف 8 گھنٹے ہو جائے گا۔ ملتان اور لاہور کے درمیان سفر 2 گھنٹے جب کہ کراچی اور راولپنڈی کے درمیان سفر 10 گھنٹے ہو جائے گا۔ منصوبے کے تحت ٹریک کے دونوں طرف فینسنگ ہوگی۔ تمام پھاٹکوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ ایم ایل- ون کے ساتھ ساتھ ایم ایل- ٹو اور کوئٹہ گوادر ٹریک پر بھی کام کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ منصوبے کی منظوری عمران خان کی وجہ سے ہوئی۔ جنہوں نے معیشت کے برے حالات اور آئی ایم ایف کی پابندیوں کے باوجود چھ ارب 80 ڈالرز کے منصوبے کی منظوری دی۔
ان کے بقول رواں ماہ یا آئندہ مہینے کے آغاز منصوبے کا ٹینڈر جاری ہوجائے گا تاکہ عالمی کمپنیاں بھی اس میں شامل ہو سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ 1961 کے بعد پاکستان میں ریلوے ٹریک تبدیل نہیں ہوا۔ 150 سال پرانے ریلوے ٹریک کے باعث حادثات رونما ہوتے ہیں۔ لیکن ایم ایل ون منصوبے کے بعد ریلوے کا سگنل سسٹم نیا ہو گا۔ تمام پھاٹک ختم ہو جائیں گے۔ ریلوے جدید دور میں داخل ہوجائے گی۔ بعد میں ریلوے کی اسپیڈ 160 کلو میٹر فی گھنٹے سے بڑھا کر 200 کلو میٹر فی گھنٹہ تک بھی کی جا سکتی ہے۔
کراچی سرکلر ریلوے
کراچی سرکلر ریلوے کے بارے میں وفاقی وزیر نے بتایا کہ کراچی کے شہریوں کے لیے سپریم کورٹ کے ٓاحکامات کی روشنی میں کراچی سرکلر ریلوے بحال کر رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ 43 کلو میٹر ریلوے ٹریک قبضہ مافیا سےخالی کروا لیا ہے۔
شیخ رشید احمد نے اعلان کیا کہ رواں برس سندھ حکومت کے تعاون سے کراچی سرکلر ریلوے بحال کر دی جائے گی۔
منصوبے کے لیے قرض
ایم ایل- ون منصوبے میں 90 فی صد فنڈنگ چین فراہم کرے گا۔ چین یہ رقم بطور قرض پاکستان کو دے گا لیکن اس پر شرح سود کتنی ہوگی اور کتنی مدت میں پاکستان کو یہ رقم ادا کرنا ہوگی اس بارے میں تفصیلات نہیں دی گئیں۔
معاشی امور کے ماہر اور تجزیہ کار خرم شہزاد کہتے ہیں کہ اس قسم کے قرضوں سے معیشت پر بوجھ نہیں پڑتا کیوں کہ یہ منصوبے طویل المدت ہوتے ہیں۔ یہ لانگ ٹرم فنڈنگ ہوتی ہے اور یہ سافٹ لون ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اس منصوبے کو بطور لیز چلایا جاتا ہے تو اس میں قرض کی مدت لانگ ٹرم ہوتی ہے۔ اس پر شرح سود ایک یا ڈیڑھ فی صد تک ہو سکتا ہے۔ لیکن اس قرض سے ملکی معیشت پر دباؤ نہیں پڑتا۔
'پاکستان میں ریل کا نظام بدل جائے گا'
تجزیہ کاروں کی نظر میں ایم ایل ون منصوبے سے نہ صرف سماجی و معاشی ترقی کا نیا باب روشن ہو گا بلکہ ریلوے کا نظام جدید ہو گا۔ منصوبے سے نوکریوں کے ہزاروں مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
تجزیہ کار خرم شہزاد کہتے ہیں کہ اس منصوبے سے معاشی طور پر بہت بہتری آئے گی کیوں کہ سب سے پہلے اس منصوبے کی تعمیر کے دوران ملازمتوں کے مواقع میسر ہوں گے اور ہزاروں افراد کو روزگار مہیا ہوگا۔
ان کے بقول تعمیر مکمل ہونے کے بعد مختلف شعبوں کے آپس میں جڑنے سے بہتری آئے گی اور ملکی معیشت میں استحکام آئے گا۔
تجزیہ کار محبوب ندیم کہتے ہیں کہ اس منصوبے کے تحت نہ صرف ریل کے انفرا اسٹرکچر میں بہتری لائی جائے گی بلکہ ریلوے کا انتظامی ڈھانچہ بھی بہتر کیا جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے مطابق ایم ایل ون کا پہلا مرحلہ چار سال میں مکمل ہو گا جس کے اندر ریلوے کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ سارا نظام کمپیوٹرائزڈ ہو جائے گا۔
ریلوے خسارہ
قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک) نے رواں سال اگست میں ایم ایل ون منصوبے کی منظوری دی تھی۔
پاکستان میں ریلوے کی ترقی کے لیے ماضی میں بھی نئی وینز اور انجن لائے گئے لیکن مسائل کی وجہ سے ریلویز مزید بحران کا شکار ہوتی رہی۔ 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے پاکستان ریلویز میں 60 ارب روپے خسارے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔
اس وقت سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ریلوے کا خسارہ 40 ارب روپے ہے اور خسارے کی بنیادی وجہ غیر ذمہ داری اور منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر ہے۔ ریلوے کے 500 میں صرف 50 اسٹیشنز کمپیوٹرازڈ ہیں۔ ریلوے کا 70 فی صد ریونیو پنشن کی مد میں جا رہا ہے۔ ڈبل ٹریک منصوبہ چار برس سے تاخیر کا شکار ہے۔
موجودہ دورِ حکومت میں ریلوے شدید مالی بحران کا شکار رہی ہے اور مالی سال 20-2019 میں ریلوے کا خسارہ نو ارب روپے بڑھا۔ 2018 میں ہدف سے چار ارب زیادہ کمانے والے ریلوے نے 2019 میں 7 ارب روپے کم کمائے۔
جمعرات کے روز سپریم کورٹ میں ریلویز خسارہ از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے ریلویز کی ری اسٹرکچرنگ کے بارے میں استفسار کیا۔ تو پلاننگ کمیشن کے حکام نے چار ہفتوں کی مزید مہلت دینے کی استدعا کی۔ جو عدالت نے منظور کر لی۔