بنگلہ دیش: عبوری حکومت پر تنقید، شیخ حسینہ کی 'نفرت انگیز' تقاریر پر پابندی

  • شیخ حسینہ نے الزام لگایا ہے کہ عبوری حکومت اقلیتوں پر حملوں کی ذمے دار ہے۔
  • شیخ حسینہ نے الزام لگایا کہ ’گنابھابن‘ پر حملہ کر کے اُنہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
  • ملک میں ریاست اپنا کام کر رہی تھی، ملک چل رہا تھا۔ لیکن اس دوران حملہ آوروں کو ہتھیار لانے کی اجازت دی گئی، شیخ حسینہ
  • بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل نے شیخ حسینہ کی 'نفرت انگیز' تقاریر پر پابندی لگا دی ہے۔

ویب ڈیسک _ ڈھاکہ میں قائم انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل نے سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی حالیہ تقریر کو 'نفرت انگیز' قرار دیتے ہوئے اسے میڈیا اور سوشل میڈیا میں چلانے پر پابندی لگا دی ہے۔

شیخ حسینہ نے اپنی حکومت کے خاتمے کے چار ماہ بعد پہلی مرتبہ بدھ کو نیویارک میں اپنی پارٹی کارکنوں سے ورچوئل ایونٹ میں آڈیو خطاب کیا۔

شیخ حسینہ کی تقریر وائرل ہونے کے بعد جمعرات کو کرائمز ٹربیونل نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ شیخ حسینہ کے تمام 'نفرت انگیز' بیانات کو سوشل میڈیا سے ہٹا دیا جائے۔

اس تقریر میں شیخ حسینہ نے الزام عائد کیا تھا کہ عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس اور طلبہ رہنما 'نسل کشی' اور اقلیتوں پر ظلم و ستم کے ذمے دار ہیں۔

اپنی معزولی اور بھارت روانگی کے چار ماہ بعد اپنے پہلے بیان میں شیخ حسینہ کا کہنا تھا کہ کوٹہ سسٹم سے متعلق طلبہ کے تمام مطالبات تسلیم کیے جانے کے باوجود جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ اور قتل و غارت کے واقعات کو ہوا دی گئی۔

پانچ اگست کو اپنی رہائش گاہ پر پیش آںے والے واقعات پر شیخ حسینہ کا کہنا تھا کہ "مسلح افراد کا رُخ ’گنابھابن‘ (وزیرِ اعظم کی سرکاری رہائش گاہ) کی طرف تھا۔ اگر سیکیورٹی گارڈز ان پر گولی چلاتے تو کئی جانیں ضائع ہو سکتی تھیں۔ لیکن میں نے گولی چلانے سے منع کیا۔ یہ 25 سے 30 منٹ کا معاملہ تھا اور اس دوران مجھے وہاں سے جانے پر مجبور کیا گیا۔"

شیخ حسینہ نے الزام لگایا کہ ’گنابھابن‘ پر حملہ کر کے اُنہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔

سابق وزیرِ اعظم رواں برس پانچ اگست کو اپنے خلاف ہونے والے احتجاج اور مظاہروں کے بعد اقتدار چھوڑ کر بھارت منتقل ہو گئی تھیں۔

اس سے قبل بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف جاری طلبہ کا احتجاج پرتشدد ہو گیا تھا۔ اس دوران مظاہروں اور پولیس فائرنگ سے متعدد افراد مارے گئے تھے۔

شیخ حسینہ کی بھارت روانگی کے بعد نوبیل انعام یافتہ محمد یونس عبوری حکومت کے سربراہ بنے تھے۔

شیخ حسینہ اور ان کی حکومت میں شامل کئی عہدے داروں پر سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں، مظاہرین پر تشدد اور ہلاکت سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سنگین الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔

محمد یونس کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ شیخ حسینہ کے خلاف مقدمات چلائے گی اور بھارت سے ان کی حوالگی کی کوشش کرے گی۔

شیخ حسینہ کا کہنا تھا کہ "آج مجھ پر نسل کشی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، درحقیقت محمد یونس اور طلبہ رہنما ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نسل کشی میں ملوث ہیں۔ یہی ماسٹر مائند ہیں۔"

شیخ حسینہ کا کہنا تھا کہ ملک میں ریاست اپنا کام کر رہی تھی، ملک چل رہا تھا۔ لیکن اس دوران حملہ آوروں کو ہتھیار لانے کی اجازت دی گئی۔ 15 اگست کو بابائے قوم (شیخ مجیب الرحمٰن) کو قتل کیا گیا تھا۔ اسی طرح وہ ایک اور قتل کرنا چاہتے تھے۔

شیخ حسینہ کا کہنا تھا کہ پانچ اگست کے بعد عوامی لیگ کے رہنماؤں اور کارکنوں پر حملے بڑھ گئے، اُن کی رہائش گاہ کو نذرِ آتش کیا گیا اور اس دوران ملک میں بسنے والی اقلیتوں بالخصوص ہندوؤں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

بھارت بنگلہ دیش کی عبوری حکومت پر زور دیتا رہا ہے کہ مندروں پر ہونے والے حملوں کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت ہندوؤں پر حملوں کی مذمت کرتی رہی ہے۔ تاہم اس کا دعویٰ رہا ہے کہ یہ حملے مذہبی نہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر ہو رہے ہیں۔

اس خبر کے لیے معلومات وی او اے بنگلہ سروس سے لی گئی ہیں۔