مسئلے کو اجاگر کرنے سے ہی اُس کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے: شرمین

  • سارہ زمان
شرمین پاکستان اور بیرون ملک ’سیونگ فیس‘ کی نمائش کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں تشدد کے خلاف آگہی پیدا کرنے کےلیے مختلف ممالک میں اداروں کے ساتھ کام جاری رکھنا چاہتی ہیں۔

پاکستان کی پہلی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم میکر شرمین عبید چنائے کہتی ہیں کہ کسی مسئلے کو دیکھ کراُنھیں جتنےشدید غصے کا احساس ہوتا ہے، اتنی ہی شدت اور سنجیدگی کے ساتھ وہ اُس مسئلے کے بارے میں فلم بنانا چاہتی ہیں۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے ایک تحقیقی ادارے یونائٹد اسٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس میں اپنی ڈاکومنٹری فلم ’سیونگ فیس‘ کی نمائش کےموقع پر شرمین کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے پاکستان میں تیزاب سےمتاثرہ خواتین کی تصاویر دیکھیں تو انہیں اس مسئلے کےحل کی ضرورت کو اجاگر کرنے کا شدت سے احساس ہوا۔ فلم ’سیونگ فیس‘ نے اس سال بہترین دستاویزی فلموں کی کیٹیگوری میں ہالی وڈ کا اعلی ترین اعزاز آسکر ایوارڈ حاصل کیا۔

’وائس آف امریکہ‘ کے اس سوال پر کہ وہ لوگ جن کے خیال میں شرمین نے پاکستانی معاشرے کا ایک منفی پہلو دنیا کے سامنے پیش کر کے اچھا نہیں کیا، شرمین کا کہنا تھا کہ وہ اس رائے سےاتفاق نہیں کرتیں، کیونکہ مسئلے کےبارے میں بات نہ کرنے سے وہ حل نہیں ہوتا۔

شرمین کے مطابق نہ صرف پاکستانی بلکہ ہر اس معاشرے میں جہاں ایسےخوفناک مسائل موجود ہیں، عام لوگوں کو ساتھ ملا کر، اور انہیں مسئلے کے حل میں شامل کر کے بہتری لائی جا سکتی ہے۔

اِس سلسلے میں، شرمین پاکستان اور بیرون ملک ’سیونگ فیس‘ کی نمائش کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں تشدد کے خلاف آگہی پیدا کرنے کےلیے مختلف ممالک میں اداروں کے ساتھ کام جاری رکھنا چاہتی ہیں۔

لیکن شرمین پاکستان کے مسائل پرخود ہی توجہ نہیں دیتیں، بلکہ اُن کے حل کے لیے دوسروں کی توجہ دلانے میں بھی مصروف ہیں۔ ۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں نئے ہیروز کی بہت سخت ضرورت ہے۔ پاکستان کے زیادہ تر ہیروز فوت ہو چکے ہیں اور ان کے نام صرف تاریخ کی کتابوں میں نظر آتے ہیں‘۔اور وہ اپنی نئی ڈاکومنٹری سیریز ’ہو یقین‘ میں، جو اِن دنوں پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز پر پیش کی جا رہی ہے، اُنھوں نے نئے ہیرو متعارف کرانے کی کوشش کی ہے۔ اس سیریز میں چھ ایسے پاکستانیوں سے ناظرین کی ملاقات ہوگی جو اپنے اپنے دائروں میں رہتے ہوئے ایک بہتر کل کے لیے آج جستجو کر رہے ہیں۔

’سیونگ فیس ‘ کی نمائش کے دوران بہت سی آنکھیں پرنم تھیں، لیکن بعد میں ایک خبر نے سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دی۔ کیونکہ، اس موقع پر امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کی سب سے بڑی تنظیم ’ایسوسئیشن آف فزیشنز آف پاکستانی ڈیسنٹ آف نارتھ امریکہ (اپنا)‘، کی صدر ڈاکٹر صائمہ ظفر نے اعلان کیا کہ وہ بھی ڈاکٹروں اور ماہر نفسیات کی ٹیمیں آئندہ کچھ دنوں میں پاکستان بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہیں ، تاکہ تیزاب سے متاثرہ خواتین کے علاج میں مدد دی جا سکے۔

شرمین کہتی ہیں کہ انہیں کم عمری سے ہی زندگی میں اپنا راستہ چننے کا مکمل اختیار ملا، جو ہر عورت کو نہیں ملتا ۔لیکن،پاکستان میں بہت سی بہادر خواتین ہیں جو اپنی اگلی نسل کے لیے ایک بہتر ماحول کے حصول کے لیےکوشاں ہیں، اور انہی کےذریعےہی ملک کا مستقبل روشن ہوگا۔