ہر دور میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو اچھے اوپننگ بیٹسمین کی ضرورت رہی ہے۔ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں اب ایسے کھلاڑی ٹیم کی ضرورت ہیں جو پاور پلے میں تیز رنز بنا کر بڑے اسکور کی بنیاد رکھیں اور اس کے بعد لمبی اننگز کھیل سکیں۔
گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کرکٹ ٹیم میں بھی کئی کھلاڑی ایسے آئے جنہوں نے اچھی کارکردگی سے اپنا لوہا منوایا۔ لیکن پھر مختلف وجوہات کی وجہ سے ٹیم سے باہر ہو گئے۔ ایسے ہی ایک کھلاڑی کراچی کنگز کے شرجیل خان بھی ہیں جنہیں 2017 میں اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے ٹیم سے باہر کیا گیا تھا۔
لیکن اب جب وہ پاکستان سپر لیگ میں واپس آکر رنز کا انبار لگا رہے ہیں تو اُنہیں فٹنس مسائل کی وجہ سے دوبارہ ٹیم میں شامل نہیں کیا جا رہا۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق اور چیف سلیکٹر محمد وسیم، دونوں کا ماننا ہے کہ ٹیم میں آنا ہے تو فٹ ہو کر آنا ہے۔ اس وجہ سے شرجیل خان اور اعظم خان اچھی کارکردگی کے باوجود قومی ٹیم کا حصہ نہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا فٹنس کا معیار ہی اچھی کارکردگی کی ضمانت ہے؟ پاکستان کرکٹ ٹیم میں اس وقت موجود کئی فٹ کھلاڑی انٹرنیشنل میچز میں نہ تو رنز بنا پاتے ہیں اور نہ ہی وکٹیں حاصل کرتے ہیں۔ لیکن چوں کہ وہ فٹ ہیں اس لیے ٹیم میں 'اِن' ہیں۔
فٹنس کا معیار اگر دیکھا جاتا تو ٹیسٹ کرکٹ سے لے کر محدود اوورز کی کرکٹ میں کئی نامور کھلاڑی کبھی اپنے ملک کی نمائندگی ہی نہ کرسکتے۔ ان میں بابائے کرکٹ ڈبلیو جی گریس، انگلش لیجنڈ سرکولن کاؤڈری، سری لنکا کے ورلڈ کپ وننگ کپتان ارجنا راناٹنگا، انگلش ٹیم کے سابق کپتان مائیک گیٹنگ، آسٹریلوی اوپنر ڈیوڈ بون اور ان کے سابق کپتان مارک ٹیلر۔
اسی طرح پاکستان کے انضمام الحق، سابق بنگلہ دیشی کپتان اکرم خان اور کیوی بلے باز جیسسی رائیڈر جیسے کھلاڑی بھی کبھی اپنی ٹیموں میں شامل نہ ہوتے۔
شرجیل خان کا وزن زیادہ ہے۔ لیکن اُن کی موجودگی سے ٹیم میں جو وزن آتا ہے، اگر مینجمنٹ اس کے بارے میں ان کی کارکردگی کو دیکھ کر فیصلہ کر لے تو شاید یہ درست فیصلہ ہو۔
شرجیل خان کی اننگز میں کیا کیا ریکارڈ بنے؟
کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں بدھ کو کھیلے جانے والے ایک میچ میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے دفاعی چیمپیٔن کراچی کنگز کو شکست تو دے دی۔ لیکن تماشائی اور مداحوں کو ہارنے والی ٹیم کے سنچورین کی اننگز کے سوا کچھ یاد نہیں۔
شرجیل خان نے بابر اعظم کے ہمراہ پہلی وکٹ کی شراکت میں 176 رنز جوڑے اور پی ایل ایس کا نیا ریکارڈ بھی بنا ڈالا۔
اس سے قبل یہ ریکارڈ کراچی کنگز ہی کے پاس تھا جب پی ایس ایل فور میں بابر اعظم اور لیئم لیوینگ اسٹون نے ملتان سلطانز کےخلاف 157 رنز بنائے تھے۔
شرجیل خان جب پی ایس ایل ون میں اسلام آباد یونائیٹڈ کا حصہ تھے تو وہ پہلی وکٹ پر شین واٹسن کے ساتھ لاہور قلندرز کے خلاف 153 رنز کی شراکت بھی قائم کر چکے ہیں۔
بدھ کو کھیلے گئے میچ میں شرجیل خان کی اننگز دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ جس کا آغاز ڈرامائی اور اختتام ہنگامی تھا۔
پہلے حصے میں شرجیل نے 18 گیندوں پر صرف 7 رنز بنائے تھے جس کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں نے ان کا خوب مذاق اڑایا۔لیکن اگلی 37 گیندوں پر انہوں نے رنز کے انبار لگا دیے اور صرف 55 گیندوں پر کراچی کنگز کی جانب سے پہلی اور مجموعی طور پر پی ایس ایل کی دوسری سنچری اسکور کی۔
شرجیل دھواں دھار اننگز کے بعد وہی لوگ جو ان کی پی ایس ایل میں شمولیت کو چیلنج کر رہے تھے۔ انہیں قومی ٹیم میں شامل کرنے کی باتیں کرنے لگے۔
اس سنچری کے ساتھ ہی شرجیل خان پاکستان سپر لیگ میں دو مختلف ٹیموں کی جانب سے سو رنز سے زیادہ کی اننگز کھیلنے والے پہلے اور دو سنچریاں بنانے والے دوسرے بیٹسمین بن گئے ہیں۔
سب سے زیادہ سنچریوں کی دوڑ میں اس وقت بھی پشاور زلمی کے کامران اکمل سب سے آگے ہیں۔ انہوں نے اب تک پی ایس ایل میں تین سنچریاں اسکور کی ہیں جو کہ اب تک کا ایک ریکارڈ ہے۔
اس وقت جس فارم میں شرجیل خان ہیں، کوئی بھروسہ نہیں کہ وہ کامران اکمل کا یہ ریکارڈ بھی اپنے نام کرلیں۔ ایک اوور میں چار مسلسل چھکوں سے جہاں انہیں اعتماد ملا۔ وہیں مخالف بالر اور کپتان شاداب خان کا اعتماد ختم کر دیا۔ اس کے بعد شاداب خان نے نہ تو میچ میں کوئی اوور پھینکا بلکہ نمبر تین پر آکر بغیر رن بنائے واپس پویلین چلے گئے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی زیرو ٹالرنس پالیسی ، قانون اپنا اپنا!
پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن کے دوران شرجیل خان اور خالد لطیف کو ایک غیر متعلقہ شخص سے ملاقات کرنے پر متحدہ عرب امارات سے واپس پاکستان بھیج دیا گیا تھا۔ لیکن حال ہی میں دو کھلاڑیوں نے بائیو سیکیور ببل توڑا، تو انہیں نہ صرف سزا سے بچالیا گیا بلکہ میچ کھیلنے کی بھی اجازت دے دی گئی۔
شرجیل خان کے فعل نے انہیں اور اُن کی ٹیم کو نقصان پہنچا تھا۔ لیکن پشاور زلمی کے کپتان وہاب ریاض اور کوچ ڈیرن سیمی سے جو فعل سرزد ہوا اس سے پوری پی ایس ایل سکس کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔
دونوں نے نہ صرف ایونٹ کے آغاز سے قبل ہوٹل کی حدود سے باہر جاکر پروٹوکول کی دھجیاں اڑائیں بلکہ بعد میں میچ کھیل کر دوسروں کو بھی ایکسپوز کیا۔