’’صدر زرداری جمہوریت کے لیے خطرہ‘‘ : نواز شریف

’’صدر زرداری جمہوریت کے لیے خطرہ‘‘ : نواز شریف

صدر زرداری نے ہفتے کے روز جسٹس ثاقب کو لاہور ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کرتے ہوئے موجودہ صوبائی چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کا حکم جاری کردیا۔ لیکن چند گھنٹوں بعد عدالت عظمیٰ نے اس فیصلے کو خلاف آئین قرار دے کر معطل کر دیا۔

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اتوار کو راولپنڈی میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے بعض آئینی مشیروں کی آرا میں ججوں کی تقرری کا فیصلہ ایک درست اقدام تھا لیکن اس معاملے کی قانونی حیثیت کا جائزہ لینے کے لیے اب عدالت عظمیٰ نے ایک تین رکنی ببنچ قائم کردیا ہے لہذا وہ اس پر مزید تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس بات کا فیصلہ اب عدالت کرے گی کہ حکومت کا فیصلہ درست تھا یا غلط۔خط

وزیرا عظم نے اس تاثر کو رد کیا کہ ججوں کی تعیناتی کے بارے میں صدر زردار ی کے ساتھ ان کے اختلافات تھے کیونکہ ان کے بقول اس ضمن میں صدر جو بھی فیصلہ کرتے ہیں وہ وزیراعظم کی ہدایت پر ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس افتخار چودھری نے حکومت کو اپنی جو سفارشات بھیجی تھیں ان پر حکومت کے تحفظات سے چیف جسٹس کو آگاہ کیا گیا اور ان سے سفارشات کا ازسر نو جائزہ لینے کو کہا گیا تھا لیکن چیف جسٹس نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا ۔

وزیر اعظم نےعدلیہ اور حکومت کے درمیان تصادم یا ملک میں کسی سنگین عدالتی بحران کے تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت یا اداروں کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ ان کے بقول حکومت جو فیصلے کرتی ہے ان میں کبھی کوئی درست اور کبھی صحیح نہیں ہوتا۔ لیکن انھوں نے اپنے اس بیان کی مزید وضاحت نہیں کی۔

’’صدر زرداری جمہوریت کے لیے خطرہ‘‘ : نواز شریف

مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے ججوں کی تعیناتی کے لیے چیف جسٹس کی سفارش کے برعکس فیصلہ کرنے پر حکومت خصوصاََ صدر زرداری پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انھیں جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ وہ اتوار کو اسلام آباد میں اپنی جماعت کے ایک ہنگامی اجلاس کے بعد صحافیوں سے خطاب کر رہے تھے۔

انھوں نے الزام لگایا کہ ”اپنی کرپشن (بدعنوانی) کے تحفظ کو آزاد عدلیہ کے احترام پر ترجیح دی جار رہی ہے۔ آزاد عدلیہ کے بارے میں یہ رویہ قوم کی امنگوں سے کھیلنے کے مترادف ہے“۔

مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کے بقول ایوان صدر نے حدوں سے تجاوز کرتے ہوئے عدلیہ پر اپنی من مانی مسلط کرنے کی کوشش کی اور انھیں اس” شرمناک اقدام سے 3 نومبر 2007 کی بو آرہی ہے‘‘۔

پاکستان میں وکلاء تنظیموں کی نمائندگی کرنے والی قومی رابطہ کونسل نے راولپنڈی میں ایک ہنگامی اجلاس کے بعد اعلان کیا ہے کہ حکومت کے مبینہ غیر آئینی اقداما ت کے خلاف وکلاء پیر کو احتجاجی ہڑتال کریں گے۔ دریں اثنا اتوار کو لاہور اور کراچی سمیت ملک کے دوسرے شہروں میں صدر زرداری کی حمایت اور مخالفت میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس افتخار چودھری نے اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی سے متعلق سفارشات پر مبنی سمری کچھ عرصہ قبل حکومت کو بھیجی تھی جس میں لاہور ہائی کورٹ کے جج میاں ثاقب نثار کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ لیکن اس سفارش کے برعکس صدر زرداری نے ہفتے کے روز جسٹس ثاقب کو لاہور ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کرتے ہوئے موجودہ صوبائی چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کا حکم جاری کردیا۔ لیکن اس سرکاری حکم نامے کے چند گھنٹوں بعد از خود نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس نے عدالت عظمیٰ کا تین ججوں پر مشتمل ایک خصوصی بینچ تشکیل دیا جس نے مختصر سماعت کے بعد صدر زرداری کے فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دے کر معطل کر دیا اور 18 فروری تک اس مقدمے کی سماعت ملتوی کر دی۔