پاکستان کی سیاست اور میڈیا کے کئی بڑے نام ماضی میں طلبہ تنظیموں کے رہنما رہ چکے ہیں۔ سابق فوجی صدر ضیاالحق نے تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی تھی اور مبصرین اس اقدام کو سیاست کی نرسری ختم کرنے سے تعبیر کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ طلبہ سیاست سے پاکستان کو کیا ملا؟ پابندی سے فائدہ ہوا یا نقصان؟ اور ضیاالحق کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس پابندی کو ختم کیوں نہیں کیا۔
اس سلسلے میں وفاقی وزیر اور سابق طالب علم رہنما شیخ رشید احمد سے خصوصی گفتگو پیش خدمت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سوال: آپ نے طلبہ سیاست کا آغاز کب کیا اور کس تنظیم کا حصہ بنے؟
شیخ رشید: میں اسکول کے زمانے ہی میں طلبہ سیاست میں آگیا تھا۔ اعلان تاشقند کے خلاف راولپنڈی کے گورڈن کالج سے جلوس ہمارے اسکول آیا۔ اس کے لیے میں نےاسکول کا دروازہ کھول دیا اور مجھے اسکول سے نکال دیا گیا۔ بعد میں معافی تلافی ہوگئی۔ پھر میں نے پولی ٹیکنیک کالج میں داخلہ لیا اور 6 نومبر 1968 کو ایوب خان کے خلاف سب سے پہلی تحریک میں نے چلائی۔ میں کالج کی طلبہ تنظیم کا سیکریٹری جنرل رہا، وائس پریذیڈنٹ رہا اور پریذیڈنٹ بھی رہا۔ مجھے مارشل لا کورٹ نے ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔ میں نے گورڈن کالج میں داخلہ لیا۔ اگلے ہی دن مجھے کالج سے نکال دیا گیا کیونکہ میں نے شیخ رشید احمد کے بجائے رشید احمد کے نام سے داخلہ لیا تھا۔ پھر میں نے عدالت کے ذریعے داخلہ لیا۔ میں گورڈن کالج میں بھی سیکریٹری جنرل، وائس پریذیڈنٹ اور پریذیڈنٹ رہا۔ میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کا صدر بنا۔ مجھے دوبارہ قید ہوئی۔ اس طرح بی اے میں نے بظاہر گورڈن کالج سے کیا لیکن امتحان جیل سےدیا۔
سوال: آپ کا سیاست میں آئیڈیل کون تھا؟
شیخ رشید: میں جن لوگوں کو آئیڈیلائز کرتا تھا، وہ سب سیاست میں ناکام ہوگئے۔ وہ غربت کے ہاتھوں مار کھا گئے۔ آغا شورش کشمیری میرے استاد تھے۔ میں نے ان سے سیاست سیکھی۔ جن لوگوں کو میں آئیڈیل سمجھتا تھا، معاشرے نے انھیں قبول نہیں کیا۔ میں نے ان کمزوریوں پر نظر رکھی جن کی وجہ سے وہ ناکام ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس وقت سب سے سینئر سیاستدان ہوں اور پاکستان میں سب سے زیادہ وزارتیں میں نے کی ہیں۔
سوال: آپ کے زمانے میں اور کون سے رہنما طلبہ سیاست میں سرگرم تھے؟
شیخ رشید: میرے ساتھ جاوید ہاشمی تھے۔ حفیظ خان تھے۔ فرید پراچہ تھے۔ راجہ انور تھے۔ پرویز رشید کے خلاف میں نے کالج میں 1971 میں الیکشن لڑا۔ پرویز رشید میرے محلے دار تھے۔ میں الیکشن والے دن ان کے والدہ کے پاس دعا کرانے کے لیے ان کے گھر چلا گیا۔ الیکشن کے بعد پرویز رشید گھر گئے تو ان کی والدہ نے نتیجہ پوچھا۔ پرویز رشید نے جواب دیا کہ آپ نے جس کو دعا دی تھی، وہ جیت گیا ہے اور میں ہار گیا ہوں۔ اس زمانے میں ہمارے درمیان تلخیاں نہیں ہوتی تھیں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ اچھی گفتگو کرتے تھے۔
سوال: طلبہ سیاست میں سرگرم رہتے ہوئے آپ گزر بسر کیسے کرتے تھے؟
شیخ رشید: میں غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ جس لال حویلی پر میں نے آٹھ بار بحیثیت وفاقی وزیر جھنڈا لہرایا ہے، اس کے نیچے میں چائلڈ لیبر تھا اور کتابیں بیچا کرتا تھا۔ رات کے وقت اور اتوار کے دن کتابیں بیچتا تھا اور اپنا خرچہ خود نکالتا تھا۔ میرے باپ دادا ریشم کا کاروبار کرتے تھے۔ میں نے سلک پر اسٹڈی کی اور ’’شیمبا شیڈائی چی'‘‘ جاپان سے سلک کا علم حاصل کیا اور پاکستان کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بنا۔ میں قالینوں کا کاروبار بھی کرتا تھا۔ لیکن چونکہ سیاست میرا شوق تھا اس لیے کاروبار کو خیرباد کہہ دیا۔
سوال: قید کے دوران آپ نے پڑھائی کیسے جاری رکھی؟
شیخ رشید: میں کلاشنکوف کیس میں سات سال کے لیے قید ہوا اور ساڑھے تین سال قید کاٹی۔ ایم اے کا امتحان میں نے بہاولپور جیل سے دیا۔ دوران قید ہی ایل ایل بی کی تیاری کی اور رہائی کے بعد پرائیویٹ ایل ایل بی کیا۔ اس طرح میں نے اپنا زیادہ تعلیمی عرصہ جیل میں گزارا۔ رہائی کے بعد میں انتظار کرتا رہا کہ کب میری عمر ہوگی کہ میں کاؤنسلر بنوں گا۔ باہر آکر میں نے میونسپل کاؤنسلر کا الیکشن لڑا۔ میں بلیک لسٹ ہوگیا تھا اور الیکشن نہیں لڑ سکتا تھا۔ ضیاالحق کے دور میں آخری دن جنرل نے اجازت دی۔ صبح میں انتخابی نشان لے کر پولنگ اسٹیشن کے باہر کھڑا ہوا اور کاؤنسلر بن گیا۔ میئر کا الیکشن ایک ووٹ سے ہارا۔
سوال: آپ کے زمانے میں بہت سے نوجوان ذوالفقار علی بھٹو کو آئیڈیالائز کرتے تھے۔ آپ نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کیوں نہیں اختیار کی؟
شیخ رشید: میں نے 6 نومبر 1966 کو بھٹو کا راولپنڈی میں استقبال کیا۔ میں نے بحیثیت نوجوان لیڈر جلوس نکا، جس میں دو افراد جاں بحق ہوگئے۔ اگلے دن پھر اپنے گھر سے جلوس نکالا۔ اس میں پھر تین افراد جاں بحق ہوئے۔ زندگی میں پہلے جلوس نکالے، ان میں لاشیں اپنے گھر لے کر آیا۔ وہ سب میرے محلے کے لوگ تھے۔ اس کے بعد مجھ پر ایک اور حملے میں بھی میرے محلے کے تین لوگ جاں بحق ہوئے۔ بھٹو نے سقوط ڈھاکہ کے بعد راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ کیا۔ اسے میں نے تن تنہا خراب کیا۔ اس کے بعد میری سیاست پاکستان میں چھا گئی کہ ایک لڑکا آیا اور بھٹو کا جلسہ تہس نہس ہوگیا۔
سوال: آپ کو سب سے پہلے کب اور کیوں گرفتار کیا گیا؟
شیخ رشید: ویسے تو مجھے اعلان تاشقند کے بعد، جب میں اسکول میں تھا تو گرفتار کیا گیا تھا۔ لیکن تب میں بچہ تھا اس لیے مار دھاڑ کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ میں پہلی بار سات یا آٹھ نومبر 1966 کو ذوالفقار علی بھٹو کا استقبال کرنے پر گرفتار ہوا۔ مجھے مارشل لا کی عدالت سے ایک سال کی قید بامشقت ہوئی۔ یحیی خان دور میں سب سے پہلے جسے قید کیا گیا، وہ شیخ رشید تھا۔
سوال: کیا یہ تاثر ٹھیک ہے کہ طلبہ سیاست میں حصہ لینے والے پڑھائی میں کم دلچسپی لیتے ہیں؟
شیخ رشید: یہ ٹھیک ہے کہ ہماری پڑھائی میں اتنی دلچسپی نہیں تھی۔ بس واجبی سے نمبر آتے تھے۔ لیکن ہمارے وقت میں طلبہ سیاست میں حصہ لینے کے لیے امتحان پاس کرنا ضروری تھا۔ اس لیے ہم امتحانات کے آخری دنوں میں پڑھتے تھے تاکہ پاس ہوجائیں اور اگلا الیکشن لڑ سکیں۔
سوال: طلبہ تنظیموں کا سوچ کر لڑائی جھگڑے اور گولیاں چلنے کا تصور ذہنوں میں آتا ہے۔ کیا آپ کے وقت میں بھی ایسا ہی تھا؟
شیخ رشید: ہم نے جب طلبہ سیاست کی، اس وقت سات کمانی والا چاقو ہوتا تھا جس کو کھولتے ہوئے آواز نکلتی تھی۔ ہمارے وقتوں میں آتشیں اسلحہ نہیں تھا۔ لڑائی جھگڑے میں لوگ چاقو نکالتے تھے۔
سوال: ضیاالحق نے طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی۔ اس کی کیا وجوہات تھیں؟
شیخ رشید: طلبہ تنظیموں کی وجہ سے امن و امان کے مسائل بن گئے تھے۔ طلبہ تنظیمیں کافی متحرک ہوگئی تھیں۔ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن، مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور جمعیت کی وجہ سے کافی تناؤ پیدا ہوجاتا تھا۔ اس کے علاوہ طلبہ ہر دوسرے ہفتے کسی نہ کسی مسئلے پر سڑکوں پر نکل آتے تھے جو ضیاالحق کو قبول نہیں تھا۔ ضیاالحق کے بعد آنے والی جمہوری حکومتیں بھی طلبہ سے ڈرتی تھیں۔ اس لیے کسی نے بھی طلبہ تنظیموں سے پابندی نہیں ہٹائی۔
سوال: کیا آپ طلبہ تنظیموں پر پابندی کے حق میں ہیں؟
شیخ رشیدنہ پہلے تھا، نہ آج ہوں۔ میں اس بات کا پرزور حامی ہوں کہ طلبہ تنظیموں کو فعال کیا جائے اور انھیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔
سوال: کیا وجہ ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے طلبہ تنظیموں پر پابندی ہٹائے جانے سے متعلق کوئی خاص اقدامات نہیں کیے جارہے؟
شیخ رشید: طلبہ کی بڑی بڑی ریلیوں کے بعد وزیراعظم عمران خان کی حکومت پابندی ہٹانے کی حامی ہیں۔ بلکہ ساری سیاسی جماعتیں اس بات کی حامی ہیں کہ طلبہ کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔
سوال: کیا موجودہ حالات میں طلبہ تنظیموں پر پابندی ہٹائی جاسکتی ہے؟
شیخ رشید: آج کے حالات میں طلبہ تنظیموں پر پابندی ہٹانا بڑا مشکل کام ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے اسلام آباد میں ہوئے ایک جلسے میں ایک لڑکا جاں بحق اور بارہ زخمی ہوئے ہیں۔ اب پاکستان میں ہر دوسرے آدمی کے پاس کلاشنکوف ہے۔ اب صلاحیتوں کا، تقریروں کا یا تنظیموں کا مقابلہ نہیں ہوتا۔ بلکہ گن پاور کا مقابلہ بھی ہوتا ہے۔