' پٹھان' نے 'نفرت کو شکست دی اور محبت کو عام کیا'

بھارت میں بالی وڈ کے سپر اسٹار شاہ رخ خان اور ان کی فلم پٹھان موضوع گفتگو بنے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا میں بھی یہی موضوع چھایا ہوا ہے اور اخبارات و رسائل میں بھی اس سے متعلق خبریں بڑے پیمانے پر شائع ہو رہی ہیں اور اس پر تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ یہ فلم 25 جنوری کو ہندی، تمل اور تیلگو زبانوں میں بھارت سمیت متعدد ملکوں میں ریلیز ہوئی ہے۔

فلم مبصرین کا خیال ہے کہ ’پٹھان‘ نے فلم انڈسٹری میں ایک نئی جان ڈال دی ہے۔ کرونا کی وبا کی وجہ سے جو بہت سے سنگل اسکرین تھیٹر بند ہو گئے تھے وہ دوبارہ کھل گئے ہیں اور وہاں بھی زبردست رش نظر آرہا ہے۔

باکس آفس انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق فلم پٹھان نے پہلے دن اندرون ملک 67 کروڑ 86 لاکھ اور بیرون ملک 29 کروڑ 31 لاکھ روپے یعنی مجموعی طور پر 97 کروڑ 27 لاکھ روپے کا بزنس کیا ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ بالی ووڈ کو اس فلم کا ایک عرصے سے انتظار تھا اور یہ امید تھی کہ اس کی نمائش فلم انڈسٹری کے لیے فالِ نیک ثابت ہو گی۔

واضح رہے کہ دو گھنٹے 26 منٹ کی یہ فلم یش راج بینر سے بنی ہے اور اس پر دو ارب 50 کروڑ رپے کی لاگت آئی ہے۔

رپورٹس کے مطابق شاہ رخ خان کے متعدد مداحوں نے ایک ہی شو دیکھنے پر اکتفا کرنے کے بجائے ایک ساتھ کئی کئی شوز دیکھے۔ تھیٹروں میں ایک ہفتے کی ایڈوانس بکنگ ہو گئی ہے۔

اس کے باوجود شائقین ٹکٹ کھڑکیوں پر جمے ہوئے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ انہیں کم از کم ایک ٹکٹ ہی مل جائے۔ یہاں تک کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھی تمام تھیٹر ہاؤس فل چل رہے ہیں۔ وہاں گزشتہ کئی برس کے بعد ایسے مناظر دیکھے گئے۔

اس فلم کو شروع سے ہی تنازعات کا سامنا رہا ہے۔ چند سال قبل جب شاہ رخ خان نے بھارت میں بڑھتے مذہبی عدم برداشت پر تشویش کا اظہار کیا تھا تو دائیں بازو کی تنظیموں سے وابستہ کارکنوں کی جانب سے ان پر جارحانہ نکتہ چینی کی گئی تھی۔


مبصرین کا خیال ہے کہ پہلے تو شدت پسند ہندو تنظیموں کو فلم کا نام ہی پسند نہیں آیا کیوں کہ اس سے مسلم شناخت ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن جب اسی اثنا میں اس کا ایک گانا ’بے شرم رنگ‘ ریلیز ہوا تو ان کی جانب سے شاہ رخ خان اور فلم کے خلاف احتجاج شروع کر دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس گانے میں فلم کی ہیروئن دیپیکا پاڈوکون زعفرانی رنگ کی بکنی اور شاہ رخ خاں ہرے رنگ کی شرٹ پہنے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ ہندو تنظیموں کا مؤقف ہے کہ زعفرانی رنگ ہندوؤں کا مذہبی رنگ ہے۔ لہٰذا ان کے خیال میں اس گانے میں زعفرانی رنگ کا استعمال کرکے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل کئی فلموں میں اداکاراوں نے زعفرانی لباس میں رقص کیے ہیں۔ رقص میں شامل ایسے کئی ہیروز ہیں جو اب حکمراں جماعت میں شامل ہیں اور چند ایک رکن پارلیمان بھی ہیں۔

سب سے پہلے ریاست مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے اس کے خلاف بیان دیا اور دھمکی دی کہ وہ مدھیہ پردیش میں اسے نہیں دکھانے دیں گے۔ اس کے بعد وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی تنظیموں کی جانب سے فلم کے بائیکاٹ کی کال دی جانے لگی۔

لیکن اسی درمیان وزیرِ اعظم نریندر مودی نے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی نیشنل ایگزیکٹو کے اجلاس میں پارٹی ورکرز کو فلموں کے بارے میں غیر ضروری بیانات دینے سے گریز کرنے کی ہدایت کی۔ اب نروتم مشرا کا کہنا ہے کہ جب سینسر بورڈ نے اسے منظوری دی ہے تو اس کے خلاف بولنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

ممبئی کے ایک سینئر فلم مبصر فرحان حنیف وارثی کہتے ہیں کہ شاہ رخ خان نے واقعی پٹھان ہونے کا ثبوت دیا اور شدت پسند تنظیموں کی دھمکیوں کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُنہوں نے کہا کہ اس فلم نے مبینہ نفرت انگیزی کی سیاست کو شکست دی اور محبت کے پیغام کو عام کیا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم کی اپیل کے بعد پولیس نے تھیٹروں کو نقصان پہنچانے کی دھمکی کے پیشِ نظر ان کے تحفظ کا غیر معمولی انتظام کیا اور کسی کو بھی ہنگامہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اب بھی سنیما گھروں کے باہر پولیس کا پہرہ ہے۔

ان کے بقول ممبئی میں شائقین میں اس قدر جوش ہے کہ 25 جنوری کو گیٹی سنیما میں پہلا شو صبح کے چھ بجے ہی رکھ دیا گیا۔ جب کہ لیٹ ناٹ شوز بھی دکھائے جا رہے ہیں۔ سنیما ہالوں کے باہر شاہ رخ خان کے مداحوں کو مٹھائیاں تقسیم کرتے، پٹاخے پھوڑتے اور رقص کرتے دیکھا جا رہا ہے۔


ان کے مطابق کرونا کی وبا کے بعد تمام فلمیں ملٹی پلیکس پر ریلیز ہو رہی تھیں یہ پہلی فلم ہے جو 25 سنگل اسکرین کے سنیما گھروں میں بھی جو کہ کرونا کی وبا کی وجہ سے بند ہو گئے تھے، دکھائی جا رہی ہے۔ ان کے بقول اس طرح جو لوگ بے روزگار ہو گئے تھے ان کو پھر روزگار مل گیا ہے۔

فرحان حنیف بتاتے ہیں کہ فلم پٹھان پورے ملک میں 7700 اسکرین پر ریلیز کی گئی۔ لیکن پہلے شو میں زبردست رش کے پیش نظر دوسرے شو میں مزید 300 اسکرینز کا اضافہ کر دیا گیا۔ مجموعی طور پر یہ فلم 8000 اسکرینز پر دکھائی جا رہی ہے جو ہندی فلموں کی تاریخ کا ایک ریکارڈ ہے۔

ان کا خیال ہے کہ فلم کے سلسلے میں اس لیے تنازع پیدا کیا گیا کہ شاہ رخ خان ایک مسلمان ہیں۔ اگر کسی اور ہیرو کی یہ فلم ہوتی تو شاید کوئی تنازع پیدا نہیں ہوتا۔

یہی بات ایک اور فلم مبصر ڈاکٹر پرکاش ہندوستانی بھی کہتے ہیں۔ ان کے مطابق ہندو تنظیمیں بالی وڈ پر خان برادران کی بالادستی کے خلاف ہیں۔ اسی لیے ان کی جانب سے وقتاً فوقتاً شاہ رخ، سلمان، عامر اور سیف علی وغیرہ کے خلاف بیانات دیے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق شاہ رخ خان کی مخالفت بھی اسی لیے کی جا رہی ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔

ان کا یہ بھی خیال ہے کہ بالی وڈ کے بھی بہت سے لوگ مسلم ہیروز کی بالادستی کے خلاف ہیں۔ وہ بھی نہیں چاہتے کہ شاہ رخ، سلمان، عامر اور سیف وغیرہ کی فلمیں کامیاب ہوں۔

خیال رہے کہ سدھارتھ آنند کی یہ ایکشن فلم حب الوطنی کے موضوع پر ہے۔ شاہ رخ خان بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ایجنٹ ہیں اور ان کا مقابلہ ’را‘ کے ہی ایک سابق ایجنٹ جان ابراہم سے ہوتا ہے جو کہ کارپوریٹ انداز میں ایک انتہاپسند تنظیم کے سربراہ ہیں۔

بعض مبصرین کہتے ہیں کہ فلم کی کہانی پر کوئی بات نہیں کی جا رہی ہے۔ جب کہ حب الوطنی کا دعویٰ کرنے والی تنظیموں کو کم از کم اس وجہ سے ہی شاہ رخ خان کی اس فلم کی حمایت کرنی چاہیے کہ انھوں نے ایک محب وطن کا کردار ادا کیا ہے۔

بعض مقامات پر فلم کے پوسٹرز پھاڑے اور نذر آتش کیے گئے۔ مدھیہ پردیش کے شہراندور میں بدھ کے روز فلم کی مخالفت کرنے والوں نے مبینہ طور پر اسلام کے خلاف قابل اعتراض نعرے لگائے۔ مسلمانوں کی جانب سے اس کی شکایت کرنے پر پولیس نے چار افراد کو گرفتار کر لیا۔