’سلامتی کونسل کا اجلاس بھارتی موقف کی نفی ہے‘

فائل

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کا مسئلہ کشمیر پر اجلاس ’’اس بات کا عکاس ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے‘‘۔

بھارت کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ’’میں بھارت سے ہرگز رابطہ نہیں کروں گا۔ وہ قاتل ہیں۔ جابر ہیں۔ بھارت کے وزیر دفاع نے ایٹمی طاقت پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی میں تبدیلی سے متعلق جو بیان دیا وہ ایک حماقت ہے‘‘۔

اسلام آباد میں جمعے کے روز نیوز کانفرنس میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سلامتی کونسل کے اجلاس سے ثابت ہوگیا کہ ’’مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ عالمی تنازعہ ہے جس کا حل ضروری ہے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ ’’سلامتی کونسل کے اجلاس سے بھارت کے کشمیر کے اندرونی مسئلے ہونے کی بھی نفی ہوگئی۔ اب دنیا جان چکی ہے کہ جس باہمی بات چیت کا ہندوستان خود کہتا تھا اسے خود اس نے یکطرفہ بنایا‘‘۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’’سلامتی کونسل میں جانے کی اطلاع پر بھارت تک خبر پہنچی، تو انہوں نے تمام کوشش کی کہ اس کو رکوا سکیں۔ مگر سلامتی کونسل کے ارکان ان کے جھانسے میں نہیں آئے۔ وہ مسئلہ جس کو بھارت نے دنیا کی نگاہ سے اوجھل رکھا آج وہ بے نقاب ہو گیا‘‘۔

انھوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد اپنی حکمت عملی طے کرنے کے لیے، ’’ہم نے کل ایک اجلاس طلب کیا ہے‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’بھارت کب تک کشمیر میں پابندی لگائے گا۔ میں بھارت کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ کشمیر سے کرفیو ہٹائے، قیدیوں کو رہا کرے پھر دیکھے کیا ہوتا ہے‘‘۔

بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے ایٹمی طاقت کے پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی میں تبدیلی پر وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’بھارت کے وزیر دفاع کا چونکا دینے والا بیان آیا ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اتنے ذمہ دار آدمی کا اتنا غیرذمہ دارانہ بیان آیا‘‘۔

بھارتی وزیر دفاع کے بیان کی شدت اور وقت انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔ اس سے ان کے ایٹمی ہتھیاروں میں پہل نہ کرنے کے دعوے کی بھی نفی ہوئی ہے، پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے اور کم سے کم دفاعی صلاحیت کو برقرار رکھے گا۔

بھارت کی طرف سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور چند دنوں کے دوران دونوں اطراف کئی سویلین اور سیکورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث سلامتی کونسل کا یہ مشاورتی اجلاس بھی ہوچکا لیکن دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے حوالے سے ابھی تک کوئی عملی قدم کسی جانب سے سامنے نہیں آیا۔