انجا جوسس کی عمر اس وقت 15 سال تھی جب اسے پتا چلا کہ اس کا باپ کون تھا۔ وہ اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔
جوسس نے بتایا کہ "اس وقت میری عمر 26 سال ہے۔ میں نے اپنی راتیں اپنے باپ کے متعلق سوچتے ہوئے گزاری ہیں۔ میں نے اپنے ذہن میں اپنے باپ کے بارے میں بہت سی تصویریں بنائی تھیں، لیکن اس میں یہ تصویر شامل نہیں تھی کہ میرا باپ ایک نامعلوم شخص تھا جس نے جنگ کے دنوں میں میری ماں کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی، جس کے نتیجے میں میں پیدا ہوئی۔"
جوسس ان ہزاروں لڑکیوں میں شامل ہے جو بلقان کے تنازع کے دوران سربوں کے ہاتھوں 20 سے 50 ہزار مسلمان لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ جبری جنسی زیادتی کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔
آج جوسس بوسینا کی جنگ کے بھلا دیے جانے والے بچوں کی ایسوسی ایشن کی سربراہ ہیں۔ ان کا گروپ جنسی زیادتی کے نتیجے میں پیدا ہونے والوں کے تحفظ کے لیے کام کر رہا ہے جس میں ان کے تعلیمی اخراجات میں مدد کے علاوہ قانونی اور نفسیاتی رہنمائی شامل ہے۔
پیر کے روز جوسس نے خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کا دن منانے کے سلسلے میں اقوام متحدہ میں ہونے والے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ "میں تاریکی میں رہنا نہیں چاہتی۔ میں لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو کر زندگی گزارنا نہیں چاہتی۔ میں معاشرے کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں یہاں موجود ہوں۔ مجھے ایک قابل نفرت بچہ نہ سمجھا جائے کیونکہ میں آپ سے پیار کرتی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ اس کے بدلے میں مجھے بھی پیار دیا جائے۔"
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد ہر جگہ موجود ہے اور دنیا میں ہر تیسری عورت اس کا نشانہ بن رہی ہے۔
جنگ زدہ علاقوں میں خواتین پر جنسی تشدد سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ پرمیلا پیٹن کا کہنا ہے کہ جنگوں سے متاثرہ علاقوں میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد آج بھی جاری ہے اور اسے بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اجلاس میں شریک انسانی حقوق کی ایک عہدے دار کیرین نائمر کا کہنا تھا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ متاثرہ خواتین پر لگنے والے بدنامی کے داغ دھوئے جائیں اور معاشرہ اُنہیں قبول کرے۔
پیر کے روز اقوام متحدہ نے جنس کی بنیاد پر تشدد اور اس سے منسلک مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے ایک 16 روزہ مہم شروع کی ہے جو 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر اختتام پذیر ہو گی۔ اس سال کا موضوع ہے، نارنجی دنیا: ریپ کے خلاف نسلی مساوات کے معیار۔
نارنجی اس مہم کا شناختی رنگ ہے اور اسے 2030 کے لیے مقرر کردہ اہداف میں جنسی برابری کے لیے جنگ کی علامت کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
دنیا بھرمیں احتجاج:
دوسری جانب خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پیر کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر ہزاروں افراد نے پوری دنیا میں ریلی نکالی جب کہ فرانس نے گھریلو تشدد کے خاتمے کے لئے نئے اقدامات کا اعلان کیا۔
گوئٹے مالا، روس، سوڈان اور ترکی میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس اور پلاسٹک کی گولیاں استعمال کیں اور احتجاج روکنے کی غرض سے شاہراہیں بلاک کردیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق 2017 میں پوری دنیا میں تقریبا 87 ہزار خواتین اور لڑکیوں کو قتل کیا گیا۔
پیر کو ماسکو کی سڑکوں پر مظاہرین نے خواتین کے تحفظ کی غرض سے قوانین کی منظوری میں حکومت کی ناکامی پرمارچ کیا۔
سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں سیکڑوں سوڈانی خواتین نے آزادی، امن اور انصاف کے لیے نعرے لگائے۔
میکسیکو سٹی میں نقاب پوش مظاہرین نے ملک میں قتل و غارت گری اورعصمت دری کی بڑھتی شرح کو روکنے میں حکام کی ناکامی کے خلاف توڑ پھوڑ کی جس کے بعد مظاہرین اور پولیس میں ہاتھو پائی بھی ہوئی۔
اسپین میں بھی ہزاروں شہریوں نے میڈرڈ میں مارچ کیا۔ صنفی تشدد کے خلاف اسپین کے دیرینہ قوانین اس مسئلے کا اصل سبب ہیں- 2019 کے آغاز سے اب تک 52 خواتین مردوں کے تشدد کا نشانہ بن کر ہلاک ہوچکی ہیں۔
صنفی تشدد پر کسی بھی ملک کا بدترین ریکارڈ جنوبی افریقہ کے پاس ہے اور اس مسئلے پر حکومت کو بڑے پیمانے پراحتجاج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔