کراچی کے علاقے شیر شاہ میں دھماکے سے 16 افراد ہلاک جب کہ ایک درجن سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں کراچی سے منتخب ہونے والے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکنِ قومی اسمبلی عالمگیر خان کے والد بھی شامل ہیں۔
شیرشاہ میں ہونے والے دھماکے سے متعلق بم ڈسپوزل حکام کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شیرشاہ میں پراچہ چوک پر ہونے والا دھماکہ سیوریج لائن میں گیس بھر جانے سے ہوا۔
دھماکے کے باعث نالے پر قائم دو منزلہ عمارت منہدم ہو گئی جس کے گراؤنڈ فلور پر قائم بینک مکمل طور پر تباہ ہو گیا جب کہ قریب واقع پیٹرول پمپ، شو رومز اور دیگر آس پاس کی عمارتوں اور وہاں موجود گاڑیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
حکام کا کہنا ہے کہ دو منزلہ عمارت غیر قانونی طور پر نالے پر قائم کی گئی تھی۔ البتہ اس حوالے سے مزید تفصیلات جمع کی جا رہی ہیں۔
دھماکے کے بعد سول اسپتال کے ٹراما سینٹر اور برنس سینٹر میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ ٹراما سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر صابر میمن کے مطابق دھماکے میں 10 افراد شدید زخمی ہوئے ہیں جن کے سر اور سینے پر زخم آئے ہیں۔
ملبے کو ہٹانے کے لیے بھاری مشینری کو بھی طلب کرنا پڑا۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ عمارت کا کچھ حصہ نالے میں گر گیا بعد ازاں کچھ افراد کی لاشیں نالے سے بھی ملیں۔
تھانہ سائٹ کی پولیس کا کہنا ہے کہ دو منزلہ عمارت نالے پر تعمیر کی گئی تھی۔ عمارت میں بینک اور دیگر دفاتر بھی موجود تھے۔
کراچی کے علاقے شیرشاہ میں دھماکے سےمتعدد افراد ہلاک ہوگئے ہیں جن میں کراچی سے منتخب ہونے والے ایک رکن قومی اسمبلی کے والد بھی شامل ہیں۔ حکام کی جانب سے اموات میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔مزید جانیے: https://t.co/ZvbMpjBnIs#Karachi #KarachiBlast #Pakistan #Sindh #UrduVOA pic.twitter.com/edbczLMvlc
— VOA Urdu (@URDUVOA) December 18, 2021
بینک میں تعینات تین ملازم اور دو گارڈز کی بھی دھماکے میں ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے جب کہ ہفتہ وار تعطیل ہونے کی وجہ سے بینک میں اسٹاف کم تھا اور پبلک ڈیلنگ نہیں ہورہی تھی۔
دھماکے کے فوری بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار جائے وقوع پر پہنچے۔
امدادی اداروں کے کارکن بھی بھاری مشینری کے ساتھ دھماکے کے مقام پر پہنچ کر عمارت کے منہدم ہونے والے حصے کا ملبہ اٹھانے لگے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ملبے کو ہٹانے کا عمل احتیاط سے کیا جا رہا ہے تاکہ ملبے میں ممکنہ طور پر دبے افراد کو بچایا جا سکے ۔
دوسری جانب حکام ہلاکتوں میں اضافے کا بھی خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق ریسکیو کی سرگرمیوں کے دوران دوسرا دھماکہ بھی ہوا تاہم اس میں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔
’دھماکے کو سوئی گیس پائپ لائن سے نہیں جوڑا جا سکتا‘
شیر شاہ دھماکے پر ردِ عمل دیتے ہوئے سوئی سدرن گیس کمپنی کا کہنا ہے کہ جائے وقوع پر گیس کے آثار نہیں ملے اور علاقے کی گیس سپلائی نارمل آ رہی ہے۔
سوئی سدرن کا کہنا ہے کہ دھماکے کو سوئی سدرن پائپ لائن سے نہیں جوڑا جا سکتا۔
’تخریب کاری کے شواہد نہیں ملے‘
وائس آف امریکہ کے نمائندے محمد ثاقب کے مطابق کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن نے بتایا کہ واقعے میں دہشت گردی سمیت کسی قسم کی تخریب کاری کے شواہد نہیں ملے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب تک یہی معلوم ہوتا ہے کہ دھماکہ بند نالے پر گیس کے اخراج کی وجہ سے ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس جائے وقوع پر فوری طور پر پہنچی اور امدادی کارروائیوں میں معاونت فراہم کی ۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس دھماکے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ کا نوٹس، رپورٹ طلب
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے شیرشاہ دھماکے کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کراچی کو تفیصلی انکوائری کرنے کا حکم دیا۔
ترجمان وزیر اعلی' ہاوس کا کہنا ہے کہ انکوائری میں پولیس کا افسر بھی شامل کیا جائے تاکہ ہر پہلو سے چھان بین ہوسکے۔
’دیکھا جائے گا کہ نالے پر عمارت کیسے بنا دی گئی‘
دھماکے کے مقام کا دورہ کرنے والے صوبائی وزیرِ بلدیات ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ دیکھا جائے گا کہ نالے پر عمارت کیسے بنا دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ غیر قانونی تعمیرات پر کارروائی کی جا رہی ہے۔
دھماکے کی جگہ کا دورہ کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر سعید غنی کا کہنا تھا کہ نالوں پر تعمیرات کے اصل ذمہ دار تعمیرات کی اجازت دینے والے ہیں۔سعید غنی کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے نالوں پر تعمیرات کرائیں ہی وہ میں ہوں یا مصطفی کمال ہوں سب کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔