شہر کے وسط میں مسجد روڈ پر واقع یہ گردوارہ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد اسکول کی عمارت میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
گردوارے کو سکھ برادری کے حوالے کیے جانے سے متعلق حکم بلوچستان کی عدالت عالیہ نے جاری کیا تھا۔
قیامِ پاکستان کے بعد اسے اسکول میں تبدیل کیے جانے کے بعد دوبارہ اصل شکل میں بحال نہیں کیا گیا تھا جس پر بلوچستان ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
سکھ کمیونٹی نے گردوارے کے انتظامات سنبھالنے کے بعد اس کی مرمت اور تزئین و آرائش کا کام شروع کردیا ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی عبادت کی غرض سے اس گردوارے کا رُخ کر رہی ہیں۔
گرو دوارے کی عمارت میں ایک بڑا ہال بھی موجود ہے جہاں سکھوں کی مذہبی کتاب 'گرو گرنتھ صاحب' رکھی ہوئی ہے۔ یہ کتاب ہر روز صبح اور شام پڑھی جاتی ہے۔
'گرو گرنتھ صاحب' پڑھنے کے لیے گردوارے میں جدید ساؤنڈ سسٹم بھی نصب کیا گیا ہے۔ بلوچستان میں لگ بھگ دو ہزار سکھ آباد ہیں۔
قدیم اور تاریخی ہونے کے باوجود بھی گردوارے کی حالت اب بھی بہتر ہے۔ وسیع و عریض عمارت کے سامنے ایک بڑا صحن بھی ہے۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ گردوارے کی تزئین و آرائش اور اسے مزید سہولیات سے آراستہ کرنے کے لیے مزید اقدامات کیے جا رہے ہیں۔