سربیا کے مفرور جنگجو لیڈر کی گرفتاری

سربیا کے مفرور جنگجو لیڈر کی گرفتاری

سربیا کے صدر بورس ٹیڈک نے تسلیم کیا کہ بلقان کی جنگوں کے آخری بھگوڑے کا پتہ چلانے اور اسے پکڑنے میں کئی برس لگے ہیں۔ لیکن صدر ٹیڈک نے کہا کہ گوران کو بھی چھپے رہنے کا اتنا ہی تجربہ تھا جتنا القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کوتھا۔

سربیا نے کہا ہے کہ بلقان کی جنگوں کے مشتبہ مفرور ملزموں میں سے آخری ملزم کی گرفتاری کا آپریشن اتنا ہی مشکل تھا جتنا دہشت گرد اسامہ بن لادن کا پتا چلانا۔ شمالی سربیا میں بدھ کے روز گوران ہیڈزک کی گرفتاری سے سات سال سے جاری تلاش ختم ہو گئی۔

بلغراد کے شمال میں 65 کلو میٹر کے فاصلے پر، جنگلات سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں میں گوران ہیڈزک کی گرفتاری سے اس کی زندگی کا وہ دور ختم ہو ا جو بلقان کی جنگوں کے زمانے میں سرب لیڈروں کی طرف سے اس کے شاندار استقبال سے شروع ہوا تھا۔ شروع میں وہ بالکل گمنام تھا اور ایک گودام میں کام کرتا تھا۔ 1991ء سے 1995ء کے دوران جب کروشیا پر کنٹرول کے لیے نسلی جنگ شروع ہوئی تو گوران بڑی اہم شخصیت بن گیا۔ 52 سالہ گوران کروشیا میں پیدا ہوا تھا۔ اس کے سربیا کے سابق صدر سلوبوڈان ملاژوک کی خفیہ پولیس اور بد نامِ زمانہ نیم فوجی گروپوں کے ساتھ ، جو کروشیا کی آزادی کے مخالف تھے، بڑے قریبی تعلقات تھے۔

اس نے ان تعلقات اور سیاسی روابط کو 1991ء میں کروشیا میں خود ساختہ سربیا کی ر یاست کا منتخب صدر بننے کے لیے استعمال کیا اور سابق یوگوسلاویہ میں 1990ء کی دہائی میں باغی سربوں کی قیادت کی۔ 2004ء میں جب اس کی گرفتاری کا بین الاقوامی وارنٹ جاری کیا گیا تو وہ شمالی سربیا کے شہر نوی ساڈ میں اپنے گھر سے فرار ہو گیا۔

2004ء میں اقوامِ متحدہ کے جنگی جرائم کے ٹریبیونل نے دی ہیگ میں گوران پر جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں فردِ جرم عائد کر دی۔ ان جرائم میں سینکڑوں لوگوں کا قتل اور اذیت رسانی اور کروشیا کے ہزاروں باشندوں اور دوسرے غیر سرب افراد کو اپنے زیرِ کنٹرول علاقوں سے زبردستی دوسرے علاقوں میں منتقل کرنا شامل ہے۔ اس پر کروشیا میں نسل کشی کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔

فرار ہونے کے بعد اس نے اپنی شکل و شباہت تبدیل کرلی۔ سرکاری ٹیلیویژن نے گوران کو جھکی ہوئی کمر کے ساتھ، آہستہ آہستہ چلتے ہوئے، ملگجی قمیض پہنے چھوٹے بالوں اور مونچھوں کے ساتھ دکھایا۔ اس نے اپنی ڈاڑھی صاف کر لی تھی۔

سربیا کے صدر بورس ٹیڈک

سربیا کے صدر بورس ٹیڈک نے تسلیم کیا کہ بلقان کی جنگوں کے آخری بھگوڑے کا پتہ چلانے اور اسے پکڑنے میں کئی برس لگے ہیں۔ لیکن صدر ٹیڈک نے کہا کہ گوران کو بھی چھپے رہنے کا اتنا ہی تجربہ تھا جتنا القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کوتھا۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں آپ کو ایک اور کیس کے بارے میں یاد دلاؤں گا، یعنی اسامہ بن لادن کا کیس۔ اس میں بھی تقریباً ایک عشرہ لگ گیا۔ لیکن بالآخر یہ کوشش کامیاب ہوئی۔ ہم بھی بہت محنت سے، بڑے منظم انداز سے ، کام کر رہے تھے، اور آخرِ کار ہم نے یہ کام مکمل کر لیا۔‘‘

کروشیا کے اندر سربیا کے ایک چھوٹی سی ریاست کے خود ساختہ انچارج کے طور پر کام کرتے ہوئے، گوران نے 1991ء میں مبینہ طور پر کروشیا کے شہر وکووار کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ کہا جاتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد، وکووار پہلا یورپی شہر تھا جو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔

سرب فورسز نے شہر کا تین مہینے تک محاصرہ کرنے کے بعد، وکووار کے ہسپتال سے 264 غیر سرب افراد کو پکڑ لیا اور انہیں نزدیک ہی ایک فارم پر لے گئے، انہیں اذیتیں دیں، گولیاں مار کر ہلاک کردیا اور ایک بے نام قبر میں دبا دیا۔ اس سے ایک مہینہ قبل، کروشیا کے 50 شہریوں کو جنھیں جبری محنت کے لیے پکڑ لیا گیا تھا، مبینہ طورپر مجبور کیا گیا کہ وہ ایک بارودی سرنگ میں چلیں تا کہ وہ سربوں کے لیے محفوظ ہو جائے۔

گوران کی گرفتاری سربیا کی طرف سے سرب جنرل ریٹکو ملاڈک کو جنگی جرائم کی پاداش میں ٹریبیونل کے حوالے کیے جانے کے دو مہینے سے بھی کم عرصے بعد عمل میں آَئی۔ ملاڈک کے جنگی جرائم میں 1995ء میں بوسنیا کے قصبے سریبرینکا میں تقریباً 8000 مسلمان مردوں اور لڑکوں کا قتلِ عام شامل ہے۔

گذشتہ بدھ کو صدر ٹیڈک نے واضح طور پر کہا کہ انھیں خوشی ہے کہ برسوں کی تفتیش کامیاب ہوئی ہے۔ ان کے مطابق ’’ہم اس سے پہلے گوران ہیڈزک اور ریٹکو ملاڈک کو پکڑ نہیں سکے تھے۔ میں ہر بات کی وضاحت بار بار کرتا رہا ہوں، کہ گذشتہ تین برسوں میں ہم نے کیا کچھ کیا ہے۔ یہ بڑا مشکل کام تھا کیوں کہ یہ بڑے تجربے کار لوگ ہیں۔ لیکن میں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے ہر ممکن اقدام کیا ہے اور مجھے ان لوگوں پر بڑا فخر ہے جو اس معاملے پر کام کر رہے تھے۔

بدھ کے روز یورپی یونین نے کہا کہ گوران کی گرفتاری سے سربیا کے یورپی یونین میں شامل ہونے کی راہ میں ایک اور رکاوٹ دور ہو گئی ہے۔‘‘