واشنگٹن کے تھنک ٹینک سٹمسن سینٹر میں شعبہ جنوبی ایشیا کے شریک ڈائریکٹر اور سینئر ایسوسی ایٹ سمیر لالوانی کہتے ہیں کہ کشمیر میں بھارتی حکومت نے طاقت کا شدت سے استعمال کیا ہے اور کشمیریوں کو صرف اقتصادی نوعیت کی مراعات دی گئی ہیں، لیکن کشمیریوں کی سیاسی شناخت کو تسلیم کرنے کا سب سے اہم مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا۔
سمیر لالوانی سٹمسن سینٹر میں جنوبی ایشیا کی علیحدگی پسند تحریکوں کے حوالے سے ایک مذاکرے سے خطاب کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے اندر مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنے کی خواہش مضبوط نہیں اور بھارت کے بعض حلقوں کی رائے میں سیاسی سہولت کا تقاضا یہی ہے کہ کشمیر کے حالات جوں کے توں رہیں۔
میری لینڈ یونیورسٹی کے اسٹنٹ پروفیسر ایلک وارسناپ کا کہنا تھا کہ دنیا میں علیحدگی پسند تحریکوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ طاقت کے بے دریغ استعمال سے انہیں دبایا نہیں جا سکتا۔ اُنہوں نے کہا کہ علیحدگی پسند تحریکوں پر تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جو ریاستیں پر تشدد گروہوں کے خلاف بے دریغ طاقت کا استعمال کرتی ہیں، وہ شہری آبادی کو بھی اپنا دشمن بنا لیتی ہیں۔ اطلاعاتی ترسیل کی جدید ٹیکنالوجی کے دور میں طاقت کے استعمال سے اُن تحریکوں کو بین الاقوامی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے جو حقیقتاً اُس ریاست کا اندرونی معاملہ تھا۔ یوں باغی گروپوں کیلئے بیرون ملک سے بھرتیاں کرنے کا امکان بھی پیدا ہو جاتا ہے جس سے صورت حال مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ طاقت کے بے دریغ استعمال سے عام شہریوں کی جانب سے علیحدگی پسند گروپوں کی حمایت میں اضافہ ہو جاتا ہے جن سے ریاست مزید دباؤ میں آ جاتی ہے۔
ایلک وارسناپ کے مطابق کشمیر میں بھارت اور پاکستان دونوں ہی مقامی آبادی کے دل میں جگہ بنانے کیلئے مقابلے بازی کی کیفیت میں ہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیر میں مزاحمتی تحریک میں شدت آئی ہے۔ تاہم ایلک وارسناپ اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کروانے میں برطانیہ کو اپنا کردارا دا کرنا چاہئے، کیونکہ بعض لوگ کشمیر کو برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا قرار دیتے ہیں، اور ان کی رائے میں کشمیر کا حل تلاش کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا برطانیہ کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ ایلک وارسناپ کہتے ہیں کہ دنیا کے مختلف خطوں میں امریکی مداخلت کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ برطانیہ کی طرف سے کسی قسم کی مداخلت کے نتائج خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک امریکہ کی طرف سے کوئی کردار ادا کرنے کی بات ہے تو امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کے تناظر میں پاکستان امریکہ تعلقات 1990 کی دہائی کے مقابلے میں بہت تبدیل ہو چکے ہیں۔ یوں امریکہ کی طرف سے کسی متوقع کردار کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھا جانا ایک فطری بات ہے کیونکہ امریکہ کا پاکستان کے ساتھ رویہ ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہا ہے۔
بلوچستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سمیر لالوانی کا کہنا تھا کہ 1970 کی دہائی کے دوران بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو کسی قدر بیرونی امداد حاصل تھی۔ موجودہ حالات میں بھی یہ رائے موجود ہے کہ بلوچ قوم پرستوں کو بھارت سے مدد فراہم کی جا رہی ہے تاہم لالوانی کے خیال میں، زیادہ تر امداد مالی اور سفارتی ہے۔ سمیر لالوانی کہتے ہیں کہ بلوچ علیحدگی پسندوں کی اہلیت دوسری علیحدگی پسند تحریکوں کے مقابلے میں کمزور درجے کی ہے اور ممکنہ طور پر اتنی طاقتور نہیں ہو گی کہ ریاست کیلئے کوئی خطرہ پیدا کر سکے، لیکن کسی مرحلے پر اس میں اتنی سکت ضرور پیدا ہو سکتی ہےکہ وہ مستقبل میں وفاق پاکستان سے زیادہ اختیارات اور مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے، چاہے یہ مراعات بلوچ برادری کیلئے ہوں یا پھر پورے صوبہ بلوچستان کیلئے۔